Wednesday, June 3, 2009

حضر ت زہرا (س) ایک حقیقی اسوئہ عمل امام خمینی (رہ)کی نظر میں

حضر ت زہرا (س) ایک حقیقی اسوئہ عمل امام خمینی (رہ)کی نظر میں
زہرا (س) ایک ایسی خاتون ہیں کہ جن پر خاندان نبوت کو ناز ہے ،وہ اسلام کی جبیں پر جھومر کی طرح چمک رہی ہیں،وہ عورت کے جسکے فضائل پیغمبر اکرم ۖ اور خاندان عصت و طھارت کے بیشما ر ٰفضائل کے ہم پلہ ہیں ِ ہ عورت جسکی شان میں ہر شخص نے اپنی فکر کے مطابق قصیدہ خوانی کی ہے، لیکن اس کی تعریف کا حق نہیں ادا ہو سکا ۔ خاندان وحی سے مروی روایات بھی سامعین کی فکری وسعت کے مطابق تھیں ، دریا کو کبھی کوزہ میں نہیں سمیٹا جا سکتا ۔ دوسرے لوگوں نے ان کے جو فضائل بیان کئے ہیں وہ انکی فکری توانائی کے مطابق ہیں نہ کہ اس خاتون کی شان و منزلت کے مطابق۔ لہزا بہتر یہی ہے کہ ہم اس محیر العقول وادی میں قدم رکھنے کی کوشش نہ کریں ۔
۔۔۔۔۔ بہر حال حضرت زہرا (س) کے جتنے بھی فضائل بیان ہوئے ہیں اگر چہ وہ بہت بڑے ہیں لیکن میں جس فضیلت کو سب سے بڑی فضیلت سمجھتا ہوں وہ ایسی فضیلت ہے جو انبیاء کے علاوہ اور انکے ہل پل بعض اولیاء کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوئی، یہجو ٧٥ دن یا ٩٠ دن تک مسلسل جبرائیل کی آمد و رفت کی بات ہے وہ اب تک کسی اور کے لئے نہیں ہوئی، یہ حضر ت صدیقہ (س) سے ہی مختص ایک فضیلت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت فاطمہ زہرا(س) کا یہ چھوٹا سا گھر اور اس گھر میں تربیت پانے والے افراد جو عددی اعتبار سے تو چار پانچافراد ہی تھے ، لیکن حقیقت میں خدا کی تمام قدرت ان میں جلوہ گر تھی انہونے ایسی خدمات انجام دی ہیں جنہونے مجھے آپکو اور تمام مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔وہ عورت کے جس نے ایک معمولی سے حجرہ اور عام سے گھر میں ایسے انسانوں کی تربییت کی کہ جن کا نور اس زمین سے لیکر افلاک تک اور عالم ملک سے لیکر ملکو ت اعلیٰ تک چمکتا ہے۔ خدا کی رحمت ہوں اس حجرہ پر جو خدا کی رحمت اور عظمت کے نور کی جلوہ گاہ اور آدم سے لیکر اولاد آدم کے سب سے ممتاز افراد کی تربیت گاہ ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی سیرت
ہمیں اس خاندان کو اپنے لئے نمونئہ عمل بنانا چا ہئے ،ہماری عورتوں کو اس گھر کی عورتوں اور ہمارے مردوں کو اس گھر کے مردوں بلکہ ہم سب کو ان سب کی پیروی کرنی چاہئے ،انہوںنے اپنی زندگی مظلوموں کی حمایت اور الہٰی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے وقف کر دی،ہمیں ان کی اتباع کرنی چاہئے ۔ ہم اپنی زندگی کو انکے لئے وقف کر دیں ، جو تاریخ اسلام سے آگاہ ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اس خاندان کے ہر فرد نے بلکہ اس سے برھ کہ ایک الہٰی انسان کی طرح ملتوں اور مظلوموں کے حق میں ان لوگوں کے خلاف قیامکیا جو ان کمزور لوگوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے
حکومت وقت کے خلاف حضرت فاطمہ زہرا(ص) کا خطبہ ،امیر المونین کا قیام کا ٢٠ سال سے بھی زیادہ عرصہ تک امیر المومنین کا صبر ، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی مدد کرنا ،اس کے بعد اسلام کی راہ میں فدا کاری کرنا ، انکے بڑے بیٹے امام حسن کا وہ عظیم کارنامہ ،جس نے بنی امیہ کی جابر حکومت کو ذلیل و رسوہ کر کے رکھ دیا ، اور پھر پیارے بیٹے حضرت سید الشھدا کا عظیم کارنامہ ،یہ وہ باتیں ہیں جو ہم سب جانتے ہیں ۔اگرچہ انکے ساتھ افراد کم تھیں ۔ جنگی وسائل کی بھی کمی تھی لیکن ان میں روح الہی اور قوت ایمانی بڑی مضبوت تھی جس نے انہیں اس طرح بنا دیا کہ انہوں نے اپنے دور کے تمام ظالموں پر فتح حاصل کر لی، انہونے اسلام کو زندگی عطا کر دی ، وہ ہم سب کے لئے نمونئہ عمل بن گئے ، ہمیں افراد اور جنگی وسائل کی کمی کے باوجود اپنے مقابلہ میں آنے والی تمام طاقتوں کے خلاف مضبوتی سے ڈٹ جانا چاہئے ۔ جس طرح ہمیں اولیاء نے یہ درس دیا ہے کہ ظالم کے مقابلہ میں کبھی تبلیغ اور اسلحہ سے لیس ہوکر ڈٹ جانا چاہئے ، ظالموں کو انکی جگہ پر بٹھا دینا چاہئے ، ہمیں بھی انکی طرز عمل پر چل کر انکی پیروی کنی چاہئے ۔ ر
۔۔۔۔۔۔کوشش کیجئے کہ خود بھی زیور اخلاق سے آراستہ ہوں اور اپنے دوستوں کی بھی اچھے اخلاق اپنانے کے سلسلہ میں مدد کریں تاکہ آپ اپنیاوپر ہونے والے مظالمکے خلاف رد عمل ظاھر کر سکیں اپنی تمام حیثیت کی حفاظت کے لئے کہ انمیں سے سب سے بڑی حیثیت عورت ہونا ہے ۔ ہمیں اس بے مثال خاتون حضرت زہرا(ص) کی پیروی کرنی چاہئے ، جس طرح وہ تھیں ہمیں بھی اسی طرح ہونا چاہئے ۔ علم اور تقوی کے لئے کوشاں رہیں علم تو سب کی دولت ہے تقوی تمام لوگوں کے لئے ہے علم اور تقوی کے حصول کے لئے کوشاں رہنا ہم سب اور آپ سب کا فریضہ ہے۔

عظمت حضرت زہرا(س) آیت اللہ شھید مرتظیٰ مطہری(رہ) کی نظر میں

عظمت حضرت زہرا(س) آیت اللہ شھید مرتظیٰ مطہری(رہ) کی نظر میں
حضرت صدیقہ طاہرہ(س) کے بارے میں قرآن فرماتا ہے کہ ''' انا اعطیناک الکوثر''' کوثر سے بالاتر کوئی کلمہ نہیں ۔اس زمانہ میں جب کہ عورت کو شر مطلق اور گناہ و فریب کا عنصر سمجھا جاتا تھا ، بیٹیوں کو زندہ دفن کر دینے پر فخر کیا جاتا تھا اور خواتین پر ظلم کو اپنے لئے شرف شمار کیا جاتا تھا ایسے زمانہ میں ایک خاتون کے لئے قرآن مجید نہیں کہتا '' خیر''' بلکہ کہتا ہے کوثر یعنی ''خیر کثیر'' ۔
حضرت زہرا (س)اور ھضرت علی گھر کے کاموں کو ایک دوسرے کے درمیان تقسیم کرنا چاہتے تھے لیکن اس بات کو پسند نہیں کرتے تھے کہ رسول خدا ۖ اس بارے میں اظہار نظر فرمائیں ۔لہذا رسول خدا ۖ سے عرض کرتے ہیں : یا رسول اللہ ہمارا دل چاہتا ہے کہ آپ فرمائیں گھر کا کون سا کام علی کریں اور کون سا فاطمہ (س) انجام دیں ؟ رسول خدا ۖ نے گھر کے اندر کے کام زہرا (س) کے سپرد کئے اور گھر کے باہر کے کاموں کی ذمہ داری علی کو سونپ دی۔حضرت زہرا (س) فرماتی ہیں کہ میری خوشی کا اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ میرے بابا نے مجھے گھر کے باہر کے کاموں سے سبک دوش کیا ۔ عالم و با شعور عورت کو ایسا ہونا چاہئے جسے گھر سے باہر نکلنے کی حرص و حوس نہ ہو ۔
ہمیں دیکھنا چاہئے کہ زہرا(س) کی شخصیت کس پائے کی ہے؟ان کے کمالات اور صلاحیتیں کیسی ہیں ؟ان کا علم کیسا ہے ؟ان کی قوت ارادی کس قدر ہے ؟ اور انکی خطابت و بلاغت کیسی ہے؟
حضرت زہرا(س) جوانی کے ایام میں اس دنیا سے رخصت ہو گئیں اور انکے دشمن اس قدر زیادہ تھے ۔ ان کے علمی آثار بہت کم ہم تک پہونچے ہیں لیکن خوش قسمتی سے انکا ایک طولانی اور مفصل خطاب تاریخ میں ثبت ہوا ہے جسے صرف شیعوں نے ہی نقل نہیں کیا بلکہ بغدادی نے تیسری صدی میں اسے نقل کیا ہے ۔ یہی ایک خطبہ اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کافی ہے کہ مسلمان عورت خود کو شرعی حدود میں رکھتے ہوئے اور غیروں کے سامنے خود نمائی کئے بغیر معاشرہ کے مسائل میں کس قدر داخل ہو سکتی ہے۔
حضرت زہرا کا خطبہ توحید کے بیان میں نھج البلاغہ کی سطح کا ہے ۔ یعنی اس قدر بلند مفاہیم کا حامل ہے کہ فلاسفہ کی پہنچسے بالاتر ہے ۔ جہاں ذات حق اور صفات بارئے تعالیٰ کے بارے میں گفتگو ہے وہاں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے کائنات کی سب سے بڑی فلسفی محو سخن ہے۔پھر فلسفہ احکام بیان کرتی ہیں :خداوند عالمنے نماز کو اسلئے واجب کیا ،روزہ کہ اس مقصد کے تحت واجب قرار دیا ، حج و امر بالمعروف و نہی از منکر کے وجوب کا فلسفہ یہ ہے ۔ پھر اسلا م سے قبل عربوں کی حالت پر گفتگو کرتی ہیں کہ تم عرب لوگ اسلا م سے پہلے کس حالت میں تھے اور اسلام نے تمہاری زندگی میں کیسا انقلاب برپا کیا ہے۔مادی اور معنوی لحاظ سے انکی زندگی پر اشارہ کرتی ہیں اور رسول خدا ۖکے توسط سے انہیں جو مادی اور معنوی نعمتیں میسر آیئں انہیں یاد دلاتی ہیں اور پھر دلائل کے ساتھ اپنے حق کے لئے احتجاج کرتی ہیں ۔
مجموعہ آثار ج۔١٧ص٤٠٣ تا ٤٠٦

Sunday, May 31, 2009

حضر ت زہرا (س) ایک حقیقی اسوئہ عمل امام خمینی (رہ)کی نظر میں

حضر ت زہرا (س) ایک حقیقی اسوئہ عمل امام خمینی (رہ)کی نظر میں
زہرا (س) ایک ایسی خاتون ہیں کہ جن پر خاندان نبوت کو ناز ہے ،وہ اسلام کی جبیں پر جھومر کی طرح چمک رہی ہیں،وہ عورت کے جسکے فضائل پیغمبر اکرم ۖ اور خاندان عصت و طھارت کے بیشما ر ٰفضائل کے ہم پلہ ہیں ِ ہ عورت جسکی شان میں ہر شخص نے اپنی فکر کے مطابق قصیدہ خوانی کی ہے، لیکن اس کی تعریف کا حق نہیں ادا ہو سکا ۔ خاندان وحی سے مروی روایات بھی سامعین کی فکری وسعت کے مطابق تھیں ، دریا کو کبھی کوزہ میں نہیں سمیٹا جا سکتا ۔ دوسرے لوگوں نے ان کے جو فضائل بیان کئے ہیں وہ انکی فکری توانائی کے مطابق ہیں نہ کہ اس خاتون کی شان و منزلت کے مطابق۔ لہزا بہتر یہی ہے کہ ہم اس محیر العقول وادی میں قدم رکھنے کی کوشش نہ کریں ۔
۔۔۔۔۔ بہر حال حضرت زہرا (س) کے جتنے بھی فضائل بیان ہوئے ہیں اگر چہ وہ بہت بڑے ہیں لیکن میں جس فضیلت کو سب سے بڑی فضیلت سمجھتا ہوں وہ ایسی فضیلت ہے جو انبیاء کے علاوہ اور انکے ہل پل بعض اولیاء کے علاوہ کسی کو حاصل نہیں ہوئی، یہجو ٧٥ دن یا ٩٠ دن تک مسلسل جبرائیل کی آمد و رفت کی بات ہے وہ اب تک کسی اور کے لئے نہیں ہوئی، یہ حضر ت صدیقہ (س) سے ہی مختص ایک فضیلت ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔حضرت فاطمہ زہرا(س) کا یہ چھوٹا سا گھر اور اس گھر میں تربیت پانے والے افراد جو عددی اعتبار سے تو چار پانچافراد ہی تھے ، لیکن حقیقت میں خدا کی تمام قدرت ان میں جلوہ گر تھی انہونے ایسی خدمات انجام دی ہیں جنہونے مجھے آپکو اور تمام مسلمانوں کو حیرت میں ڈال دیا ہے ۔وہ عورت کے جس نے ایک معمولی سے حجرہ اور عام سے گھر میں ایسے انسانوں کی تربییت کی کہ جن کا نور اس زمین سے لیکر افلاک تک اور عالم ملک سے لیکر ملکو ت اعلیٰ تک چمکتا ہے۔ خدا کی رحمت ہوں اس حجرہ پر جو خدا کی رحمت اور عظمت کے نور کی جلوہ گاہ اور آدم سے لیکر اولاد آدم کے سب سے ممتاز افراد کی تربیت گاہ ہے۔
حضرت فاطمہ زہرا (س) کی سیرت
ہمیں اس خاندان کو اپنے لئے نمونئہ عمل بنانا چا ہئے ،ہماری عورتوں کو اس گھر کی عورتوں اور ہمارے مردوں کو اس گھر کے مردوں بلکہ ہم سب کو ان سب کی پیروی کرنی چاہئے ،انہوںنے اپنی زندگی مظلوموں کی حمایت اور الہٰی اقدار کو زندہ کرنے کے لئے وقف کر دی،ہمیں ان کی اتباع کرنی چاہئے ۔ ہم اپنی زندگی کو انکے لئے وقف کر دیں ، جو تاریخ اسلام سے آگاہ ہے وہ یہ جانتا ہے کہ اس خاندان کے ہر فرد نے بلکہ اس سے برھ کہ ایک الہٰی انسان کی طرح ملتوں اور مظلوموں کے حق میں ان لوگوں کے خلاف قیامکیا جو ان کمزور لوگوں کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے
حکومت وقت کے خلاف حضرت فاطمہ زہرا(ص) کا خطبہ ،امیر المونین کا قیام کا ٢٠ سال سے بھی زیادہ عرصہ تک امیر المومنین کا صبر ، اس کے ساتھ ساتھ حکومت کی مدد کرنا ،اس کے بعد اسلام کی راہ میں فدا کاری کرنا ، انکے بڑے بیٹے امام حسن کا وہ عظیم کارنامہ ،جس نے بنی امیہ کی جابر حکومت کو ذلیل و رسوہ کر کے رکھ دیا ، اور پھر پیارے بیٹے حضرت سید الشھدا کا عظیم کارنامہ ،یہ وہ باتیں ہیں جو ہم سب جانتے ہیں ۔اگرچہ انکے ساتھ افراد کم تھیں ۔ جنگی وسائل کی بھی کمی تھی لیکن ان میں روح الہی اور قوت ایمانی بڑی مضبوت تھی جس نے انہیں اس طرح بنا دیا کہ انہوں نے اپنے دور کے تمام ظالموں پر فتح حاصل کر لی، انہونے اسلام کو زندگی عطا کر دی ، وہ ہم سب کے لئے نمونئہ عمل بن گئے ، ہمیں افراد اور جنگی وسائل کی کمی کے باوجود اپنے مقابلہ میں آنے والی تمام طاقتوں کے خلاف مضبوتی سے ڈٹ جانا چاہئے ۔ جس طرح ہمیں اولیاء نے یہ درس دیا ہے کہ ظالم کے مقابلہ میں کبھی تبلیغ اور اسلحہ سے لیس ہوکر ڈٹ جانا چاہئے ، ظالموں کو انکی جگہ پر بٹھا دینا چاہئے ، ہمیں بھی انکی طرز عمل پر چل کر انکی پیروی کنی چاہئے ۔ ر
۔۔۔۔۔۔کوشش کیجئے کہ خود بھی زیور اخلاق سے آراستہ ہوں اور اپنے دوستوں کی بھی اچھے اخلاق اپنانے کے سلسلہ میں مدد کریں تاکہ آپ اپنیاوپر ہونے والے مظالمکے خلاف رد عمل ظاھر کر سکیں اپنی تمام حیثیت کی حفاظت کے لئے کہ انمیں سے سب سے بڑی حیثیت عورت ہونا ہے ۔ ہمیں اس بے مثال خاتون حضرت زہرا(ص) کی پیروی کرنی چاہئے ، جس طرح وہ تھیں ہمیں بھی اسی طرح ہونا چاہئے ۔ علم اور تقوی کے لئے کوشاں رہیں علم تو سب کی دولت ہے تقوی تمام لوگوں کے لئے ہے علم اور تقوی کے حصول کے لئے کوشاں رہنا ہم سب اور آپ سب کا فریضہ ہے۔

Sunday, May 24, 2009

فاطمہ زہرا (س) معتبر ترین راویئہ احادیث












































































بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
فاطمہ زہرا (س) معتبر ترین راویئہ احادیث
فاطمہ زہرا (س) جگر گوشئہ رسالت تھی مدینہ العلم کا حصہ اور باب العلم کی شریک تھی ، ملک عصمت کی شاہزادی ؛طہارتوں کی ملکہ ، پاکیزگی کا سمندر ، تربیت کی درسگاہ ، نور کا پیکر، حکمتوں کا منبع ، عقل کا کوہ سار ، توحید کی پرچم دار معلمہ عبادت و دعا ، مجسمئہ اخلاق ، نشان صبر و استقامت،آیات الٰہی کی مفسرہ، تطھیر کی جان اور سورئہ قدر کی حقیقی مصداق،پیغمبرون کے سردار کی راحت جاں،ہر لحاز سے علی کی کفو، ، مادر سلسلئہ امامت و طھارت ، حق طلب افراد کے لئے نمونئہ عمل ، مطلومین عالم کے لئے بہترین اسوہ،وہ سب کچھ تھی لیکن ایک کردار جو اس پاک شخصیت کا کم لوگوں کے سامنے آپایا پے وہ ہے فاطمہ زہرا (س) ایک راویئہ حدیث کی حیثیت سے فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کے اس رخ پر زرا کم روشنی ڈالی گئی ہے جب کہی جب کہ فاطمہ زہرا احادیث نبوی کے لئے معتبر ترین منبع تھیں اسلئے کہ گھر کی بات گھر والے بہتر جانتے ہیں اور پھر معتبر روایات میں ملتا ہے کہ پیمبر اسلام ۖ جب کہیں باہر سفر پر جایا کرتے تھے تو سب سے آخر میں فاطمہ(س) سے رخصت ہوتے تھے اور جب واپس آتے تھے تو سب سے پہلے فاطمہ زہرا(س) سے ملاقات کرتے تھے ، فاطمہ ہی تو تھی جو پیمبر اسلام (س) اسلام کی دعوت اسلام کے شروعاتی ایام سے ساتھ میں تھی فاطمہ ہی تو تھی جو مشرکان عرب کی اذیتوںکے سبب جسم نازنین پر لگنے والے زخموں ااور انسے بہتے ہوئے خون کو صاف کرتی تھی فاطمہ (س) ہی تو تھی جس نے محضر رسول ۖ میں ملائکہ کی رفت و آمد اور وحی کے نزول کی کیفیت کو درک کیا ۔لیکن زمانہ کی ستم ظریفی یہ رہی کہ اس صادق ترین راوی اور ایسی معتبر ترین محدثہ کہ جسکی زبان کی صداقت کی شھادت قرآن نے بارہا دی ، سے بہت کم روایات مسلمانوں کی کتابوں میں نقل کی گئئی ہیں ۔ اس تحریر میں کوشش یہ کی گئی ہے کہ فاطمہ زہرا(س) کی شخصیت کے اس پہلو کو کچھ اور اجاگر کیا جائے ۔یقنی طور پر فاطمہ زہرا (س) کی زندگی کے کسی خاص پہلو پر روشنی ڈالنا ایسا ہی ہے جیسے سورج کو چراغ دکھانا لیکن صرف اس امید میں کہ شاید یہی کوشش اگر قبول بارگاہ حق ہو جائے تو دنیا اور آخرت مین نجات کا سامان ہو جائے اور کچھ اس حق کی ادائگی ہو جائے جو اپاک خاتون اور حبیبئہ خدا کا ہماری گردن پر ہے اس تحریر میں فاطمہ زہرا (س) سے روایت شدہ کچھ احادیث اور رویات پیش کی جا رہی ہے ۔
١۔دوسروں کے سا تھ نرم برتائو اور خواتین کا حترام
پیامبر اکرم ۖ نے فرمایا؛ تم لوگوں میں بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے ساتھ نرمی سے پیش آئے اورخواتین کا احترام کرے
{مسند فاطمہ زہرا (س) ، ص ٢٢١}
٢۔علی رہبر و پیشوا
پیامبر اکرم ۖ نے فرمایا : میں جس کا مولی ہوںعلی اس کے مولٰی ہیں اور جسکا میں رہبر ہوں علی اسکے رہبر ہیں
{ بھجہ ج ١،ص ٢٨٥}
٣۔ علی بہبہترین داور اور فیصلہ کرنے والے
فرشتوں کا ایک گروہ کسی چیز کے بار ے میں علمی گفتگو کرتے ہیں اور انمیں اختلاف ہو جاتا ہے خدا سے سوال کرتے ہیں کہ خدایا ہمارے لئے بنی آدم میں سے کسی کو داور قرار دے خداواند عالم ان لوگوں پر وحی نازل کرتتا ہے کہ تم لوگ خود جسے چاہو اپنے بیچ فیصلے کے لئے منتخب کر سکتے ہوں اور فرشتوں نے اس کام کے لئے علی کا انتخاب کیا ۔
{ بھجة ج ١ ، ص٣٠٦}
٤۔ دانا ترین اور سب سے پہلے مسلمان
رسول خدا نے مجھ سے فرمایا ۔تمہارا شوہر لوگوں میں سب سے زیادہ عالم ، سب سے پہلا مسلمان اور سب سے زیادہ بردبار ہے ۔
{ بھجة ج ١ ص ٣٠٢}
٥۔ فرزندان رسول خدا ۖ کی مدد
پیمبر اکرم ۖ نے فرمایا ؛ جو بھی میری اولاد میں سے کسی کے لئے کوئی کام انجام دے اور اس کام کی اجرت نہ لے ، میں اسکی اجرت میرے ذمہً ہے اور میں اسکی اجرت دونگا
{ بھار الانوار ج ٩٦ ص٢٢٥}
٦۔ علی اور انکے شیعہ
پیامبر خدا ۖ نے علی کی طرف نگاہ کی اور فرمایا ؛ یہ(یعنی علی ) اور انکے شیعہ اھل بھشت ہیں
{احقاق الحق ج٧،ص٣٠٨}
٧۔ علی کے شیعہ قیامت کے دن
رسول خدا ۖ نے علی سے فرمایا ؛ اے ابالحسن ،جان لو کہ تم اور تمہارے پیروی کرنے والے جنت میں ہونگے
{احقاق الحق ج ٧ ص ٣٠٧ }
٨۔ پیمبر اسلام ۖ اھل بیت کے درمیاں
میں رسول خدا کی خدمت مٰن شرف یاب ہوئی ، پیمبر اسلام ۖ نے ایک کپڑے کو پھیلایا اور مجھسے کہا کہ بیٹھ جائو ۔ اسی اثنا میں حسن تشریف لے آئے ، رسول خدا ۖ نے حسن سے فرمایا ؛ اپنی ماں کے پاس بیتھ جائو اسکے بعد حسین وارد ہوئے ، رسول خدا ۖ نے حسین سے فرمایا کہ انکے ساتھ بیٹھ جائو، کچھ دیر بعد علی تشریفد لے آئے اور رحمة اللعالمین ۖ نے فرمایا اے علی تم بھی ان کے ساتھ بیٹھ جائو اس کے بعد رسول اکرم ۖ نے اس کپڑے کو پکڑا اور ہم لوگوں کے اوپر ڈال دیا
{ بھجة ج١ ص ٢٨٧}
٩۔ فاطمہ زہرا (س) پر صلوات کا صواب
رسول خدا ۖ نے مجھ سے فرمایا ؛ اے فاطمہ (س) جو بھی تم پر صلوات بھیجیگا خدا اسکو ب خش دیگا اور میں بھشت میں جہاں بھی ہوونگا خدا س صلوات بھیجنے والے کو مجھ سے ملحق کر دیگا
{ بھجة ج ا ص ٢٨٧}
١٠ ۔ حجاب فاطمہ زہرا (س)
پیمبر خدا ۖ ایک نابینا شخص کے ساتھ فاطمہ زہرا (س) کے بیت الشرف پر تشریف لائے فاطمہ زہرا(س) نے فوراً اپنے آپ کو پوری طرح چھپا لیا . رسول خدا ۖ نے فرمایا ؛ کیوں کخود کو اس طرح چھپا لیا یہ نابینا شخص تو تمہیں نہی دیکھ سکتا ؟ فاطمہ زہرا (س) نے فرمایا ؛ اے اللہ کے رسول سچ کہا آپ نے کے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا ،لیکن میں تو اسے دیکھ سکتی ہوںاور بیشک وہ مجھے نہیں دیکھ سکتا لیکں میری خوشبو کو تو محسوس کر سکتا ہے. پیمبر اسلامۖ نے فرمایا؛اے فاطمہ (ص) میں گواہی دیتا ہوں کہ بیشک تو میرے دل کا ٹکڑا ہے۔
{ بھجة ج ١ ص ٢٧٤ }

اا۔ رسول خدا ۖ اور انکی بیٹی فاطمہ زہرا (ص) پر درود و سلام کا صواب
میرے والد اپنی زندگی میں مجھ سے فرماتے تھے ؛ اے فاطمہ (س) جو بھی مجھ پر اور تم پر تین دن تک درود و سلام بھیجیگا جنت اس پر واجب ہو جائیگی۔
{ بھجة ج ١ ص ٢٦٧}

١٢۔ پیمبر گرامی اسلام ۖ ، فاطمہ (س) کی نسل پاک کے باپ
فاطمہ زہرا (س) رسول خدا سے نقل کرتی ہین کہ اللہ کے رسول فرماتے تھے ؛ بیشک خدا وند عالم نے ہر انسان کی ذریت کواسکے ساتھ منسوب کیاہے لیکن سوائے ا ولاد فاطمہ زہرا (س) کے ،خدا نے فاطمہ (س) کی اولاد کو میرے سع منسوب کیا ہے اور انکو میری اولاد قرار دیا ہے۔
{فرائد السمطین ج٢ ص٧٧}
١٤۔ حقیقی خوش بختی
فاطمہ زہرا (س) رسول خدا ۖ سے نقل کرتی ہین کہ رسول خدا نے فرمایا ؛ کہ یہ جبریئل ہے جو مجھے خبر دے رہا ہے کہ بیشک خوش بخت حقیقی وہ ہے جو علی کو میری زندگی میں اور میرے بعد دوست رکھے .
{ بھجة ج ١ ص ٢٧١}

فاطمہ زہرا (س) کے خطبہ کے کچھ حصے
حضرت زہرا(س) اپنی اس مشہور سخنرانی میں کہ جو مسجد میں آپنے ارشاد فرمائی ، فرماتی ہیں کہ
خداوند عالم نے ایمان کو انسان کی شرک جیسی نجاست سے پاکیزگی کے لئے قرار دیا
اور نماز کو اس لئے قرار دیا تاکہ تم لوگ تکبر کی آلودگی سے پاک ہو جائو
زکات کو اسلئے واجب قرار دیا تاکہ تمھاری زندگی پاکیزگی کے ساتھ گزرے اور تمہارے رزق میں اضافہ ہو
روزہ کو تمہارے اخلاص کی تثبیت کے لئے واجب قرار دیا
اور حج کو اسلئے واجب قرار دیا تاکہ دین کو قوت ملے
عدل کو دلوں کی طھارت اور زیبائی کے لئے
اور ہماری اطاعت کو قوم میں نظم و ضبط برقراق رکھنے کے لئے واجب گردانا ہے
اور ہماری امامت کو اختلافات اور تفرقہ سے تحفظ کا وسیلہ قرار دیا
جھاد کو عزت اسلام کے لئے
اور صبر کو اجرت کے استحقاق کے لازم کیا
اور صلہ ارحام کو لوگوں میں اضافہ کا وسیلا
اورقصاص کو خون خرابہ سے تحفظ کا وصیلا بنایا
نزر کو پورا کرنے کو اسلئے واجب کیا تاکہ تم لوگ مغفرت کے اھل ہو جائو
ناپ تول میں ایمانداری کو اسلئے ضروری قرار دیا تاکہ کمفروشی کی عادت تبدیل ہو جائے
شراب خوری سے اسلئے منع کیا تاکہ تم لوگ پلیدگی سے اور برائیون سے پاک رہو
تھمت نا لگانے کا حکم اسلئے آیا تاکہ تم لوگ لعنت الٰہی سے امان میں رہو
چوری چھوڑ دینے کا حکم اسلئے آیا تاکہ تم لوگ پاک دامن رہو
شرک کو حرام قرار دیا تاکہ تم لوگ اپنے خدا کے مخلص رہو
اسلئے اپنے خدا سے ایسے ڈرو جیسا کہ ڈرنے کا حق ہے اور کوشش کرو کہ جب تمہیں موت آئے تو تم مسلمان کی موت مرو
اور خدا نے جن چیزوں کا تمہیں حکم دیا ہے اور جن چیزوں کو انجام دینے سے تمہیں روکا ہے ان میں خدا کی اطاعت کرو
'اسلئے کہ بندگان خدامیں سے صرف آگاہ لوگ ہی خدا سے ڈرتے ہیں (سورئہ فاطر آیہ٢٨)
{احتجاج طبرسی ص٩٩ چاپ سعید}
١٥۔ اھل بیت کی منزلت خدا کے نزدیک
خدا کی حمد بجا لائو اور اسکا شکر ادا کرو کہ اسکی عظمت اور اسکے نور کی وجہ سے جو بھی زمین اور آسمان میں ہے اسکی طرف راستا تلاش کرتا ہے ، اور ہم اھل بیت اسکی طرف وصیلا ، اسکی بارگاہ اقدس کے خاص ، اسکی غیبی حجت اور اسکے پیامبران کے وارث ہیں ۔
{فاطمہ زہرا (س) بھجة قلب مصطفٰی ج ١ ص٢٦٥}
١٦۔ ایک جامع اور کامل ترین دستور العمل
ایک دن رسول خدا ۖ تشریف لائے اس وقت میں بستر خواب لگا چکی تھی ۔ پیمبر اسلام ۖ نے مجھ سے فرمایا ؛ اے فاطمہ(س) مت سو ئو جب تک کہ چار کام انجام نا دے لو ، قران کو ختم کرو ،پیمبران الٰہی کو اپنا شفیع قرار دو،حج و عمرہ کو بجا لائو اور مومنین کو خود سے راضی کر لو۔ رسول خدا ۖ نے ہ فرمایا اور نماز پڑھنے میں مشغول ہو گئے۔ میں نے انتظار کیا یہاں تک کہ رسول اللہ نے اپنی نامز تمام کر لی تب میں نے رسول خدا ۖ سے فرمایا اے خدا کے رسول مجھے ایسی چیز کا حکم دیا ہے جس کے انجام دینے پر میں قادر نہیں ہوں ۔ رسول خدا ۖ مسکراے اور فرمایا: اگر قل ھو اللہ کو بار پڑھوگی تو ایسا ہی ہے جیسے تم نے پورا قرآن پڑھ لیا ہو،اگر مجھ پر اور مجھ سے پہلے پیمبران الٰہی پر صلوات بھیجونگی تو ہم لوگ روز قیامت تمہارے شفیع ہونگے، اور اگر مومنین کے لئے استغفار کرونگی تو وہ سب کے سب تم سے راضی ہو جائینگے،اور جب کہونگی''' سبحان اللہ والحمد للہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر'' تو گویا تم نے حج و عمرہ کے فرائض انجام دئے۔
{بھجة ج ١ ص ٣٠٤}
١٧۔ کنجو سی کا نقصان
پیمبر اسلام وۖنے فرمایا ؛ کنجوسی سے بچو اسلئے کہ یہ آفت بزرگ شخصیتوں میں نہیں پائی جاتی، کنجوسی سے بچو اسلئے کہ یہ جھنم کی آگ میں ایک درخت ہے کہ جسکی شاخیں دنیا میں ہے اور جو کوئی بھی اسکی کسی شاخ سے لپٹ گیا ،یہ شاخ اسے جھنم لے جائیگی۔
{ بھجة ج ١ ص ٢٦٦ }
١٨ ۔سخاوت کا نتیجہ
پیمبر اسلام ۖ نے مجھ سے کہا : اے فاظمہ (س) ہمیشہ سخاوت کی صفت اپنے اندر باقی رکھو اسلئے کہ سخاوت جنت میں ایک درخت ہے جسکی شاخیں زمین پر لٹکی ہوئی ہیں جو کوئی بھی اسکی کسی شاخ کو پکڑ لیتا ہے اسے یہ جنت کی طرف لے جاتی ہے۔
{ بھجة ج ١ ص ٢٦٦ }
١٩۔ صبح میں جلد اٹھنا
رسول خدا ۖ میرے پاس تشریف لائے در حالیکہ میں صبح کے وقت سوئی ہوئی تھی پیمبر اسلام ۖ نے مجھے جگایا اور فرمایا : اے میری نور نظر ، اتھو اور اپنے پروردگار کے رزق اور روزی پر گواہ بنو اور غفلت ناکرو اسلئے کہپروردگار امخلوق کے رزق کو طلوع فجر اور طلوع آفتاب کے درمیان تقسیم کرتا ہے۔
{ مسند فاطمہ زہرا (س) ص ٢١٩}
٢٠۔ دعا کی قبولیت کا وقت
رسول خدا ۖ نے فرمایا: کہ جمعہ کے دن ایک وقت ایسا ہے کہ جس وقت میں بندہ اپنے خدا سے جو کچھ بھی طلب کرتا ہے خدا اسے عطا کرتا ہے اور وہ دعا کی قبولیت کا وقت تب ہوتا ہے جب ادھا سورج مغرب کے قریب ہوتا ہے
{ مسند فاطمہ زہرا ص٢٢١}

















Sunday, April 5, 2009

arwi bint haris bin abdul muttalib , rahe Ali ki mujaheda

بسم اللہ الرحمًٰن الرًحیم
اروی دختر حارث بن عبدالمطًلب

امیرالمومنین کی شھادت کے بعد مولا کے پر برکت مکتب میں تربیت پانے والے کچھ شیعیان کی ملاقات معاویہ سے ہوتی ہے یا معاویہ کے حکم پر انہیں معاویہ کیے در بار میں حاضر کیا جاتا ہے . غالباً معاویہ انکی جرئات گفتار . بے باکانہ لھجہ .حق گو زبان اور علی کی محبت پر انکی پا فشاری پر تعجبب کرتا تھا .اور اسکے باوجود کہ ان لوگوں کا کینہ دل میں رکھتا تھا لیکن اسکے باوجود ان لوگوں کے ساتھ سکوت اور بردباری میں اپنا فایدہ دیکھتا تھا ۔معاویہ کی سخت مخالفت کرنے والوں میں کچھ با فضیلت خواتین بھی تھیں کہ جنہوںنے اپنے عقیدہ سے دفاع اور مولا کے دشمنوں کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنا نام تاریخ شیعت کے اوراق پر سنہرہ الفاظ میںثبت کرا یا اس طرح کہ قیامت تک راہ ولایت پر آگے بڑھنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے لئے بھی اسوئہ عمل بن گئی۔انشااللہ اس تحریر میں ہمارا مقصد ایسی ہی ایک با عظممت خواتین کے کردار کی ایک جھلک پیش کرنا ہے کہ کس طرح اس علی کی چاہنے والی با عظمت خاتون نے معاویہ جیسے ظالم و جابر حکمراں کے سامنے حق گوئی کا مظاہرہ کیا اورامیرالمومنین کے بارے میں اپنے عقیدہ کا اعلان کیا۔ اور وہ خاتون ہے ''' اروی دختر حارث بن عبدالمطًلب'''۔ یہ رسول اللہ ۖ اور امیر المومنین کے چچا کی بیٹی تھیں اور ایک ایسی آزاد روح خاتون تھی کہ جسکے عقیدوں کو ظلم و ستم کی کوئی زنجیر قید نہیں کر سکتی تھی مولا کی شھادت کے بعد معاویہ کو یہ گمان تھا کہ شاید آج یہ پاک دامن خاتون بڈھاپے اور ناتوانی کے سبب اسکے سامنے معذرت خواہی کے لئے آجائیگی مگر اسکو یہ گمان بھی نہ تھا کہ جسکے ذھن و دل پر علی کی محبت حکم فرماں ہو وہ کسی ظالم و جابر کے سامنے سر نہیں جھکاتے ۔جو زبانیں علی کی مدح کی چاشنی چکھ لیتی ہیں وہ کٹ تو جاتی ہیں لیکن کسی اور کی تعریف نہیں کرتیں .'' اروی معاویہ کے سامنے پیش ہوتی ہے اور پیش ہے اروی اور معاویہ کے بیچ گفتگو۔۔۔
معاویہ۔۔۔۔ خوش آمدید ؛اھلاً و مرحبا؛ ہمارے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
اروی...اے برادر زادہ ! تونے نعمت الٰھی کا کفران کیا اور اپنے چچازاد علی کے ساتھ برا برتائو کیا اور َََََََِِِِاپنے لئے''خلیفہ'' کے نام اور خطاب کو انتخاب کیا جبکہ تو اسکے لائق نہیں تھا ؛خلافت تیرا حق نہیں تھا لیکن تونے حق خلافت کو غصب کیا جبکہ تو اور تیرا باپ دونو ں ہی نے اسلام کے معاملہ میں کوئی خدمت انجام نہیں دی اور نہ ہی تم دونوں کا دین اسلام میں کوییئی سابقہ تھا 'رسول خدا پر تب تک ایمان نہ لائے جب تک کہ خدا نے تم لوگوں کو ذلیل نہ کر دیا۔ تم لوگ مجبوری کے عالم میں مسلمان ہوئے اور کراھت اور مجبوری کی حالت میں تم لوگوں نے رسول کی حقانیت کی گواہی دی جبکہ دل سے تم لوگ ان کے منکر تھے تم لوگوں نے ابتدائے اسلام سے انکی مخالفت کی اور اسلام کی طاقت سے مجبور ہوکر اسلام قبول کیا اور اور آخر کار یہ جانتے ہوئے بھی کہ دین اور ایمان میں اھل بیت کا ہصہ سب سے زیادہ ہے. رسول خدا ۖ کی رحلت کے بعد اھل بیت کے حق کا انکار کیا۔
بہت عجیب ہے کہ تم لوگ پیامبر سے نزدیکی اور قرابت کو اپنے لئے شرف اور فضیلت شمار کرتے ہوںاور اس قربت اور نزدیکی کو اپنی حقانیت کی دلیل سمجھتے ہوں جبکہ تم جانتے ہوں کہ علی تم لوگوں کے مقابلہ رسول ۖ سے زیادہ نزدیک اور خلافت کے منصب کے زیادہ حقدار ہیں ، اسکے باوجود تم نے ان سے جنگ کی .
آہ ! افسوس کہ تم لوگوں نے پیامبر کی آل کے ساتھ وہی برتائو کیا جو فرعون کے ماننے والوں نے موسٰی کے ماننے والوںکے ساتھ کیا تھا، اس طرح کہ انکے مردوں کو قتل کر دیا اور انکی خواتین کو زندہ چھوڑ دیارسول ۖ کے چچا زاد بھائی علی کی منزلت رسول کے نزدیک ہوہی تھی جو ھارون کی منزلت موسٰی کے نزدیک تھی لیکن جس طرح ھارون کو موسٰی کی قوم نے موسیٰ کی غیر موجودگی میں ذلیل کیا اور اس پر ظلم و ستم کیا اسی طرح علی کوآزار و اذیًت کرنے میں قریش نے کوئی کمی نہ چھوڑی یہہاں تک کہ انہونے اپنی مظلومی کا نوحہ اس طرح پڑھا کہ ''یابن عم ان القوم اسستضعفونی و کادوا یقتلوننی '''. اے میرے بھائی تمہاری قوم نے مجھے ضعیف کر دیا ( یعنی میری منزلت کو نہیں سمجھا) اور قریب تھا کہ یہ قوم مجھے قتل کر دیتی۔
ہاں! پیامبر ۖ کے بعد تم لوگوں نے انکے اھل بیت کو ستانے میں کوئی کوتاھی نہیں کی لیکن خدا کا شکر کہ وہ لوگ جنًتی اور تم لوگ جہنًمی ہو گئے۔
اس موقعہ پر جب معاویہ کے اصحاب دیکھتے ہیں کہ'' اروی' انکے چہرہ پر پڑی اسلام کی نقاب کو الٹ رہی ہے اور ان لوگوں کے ظلم کو ظاہر کر رہی ہے تو اپنی زبان پر اختیار کھو دیتے ہیں عمر عاص جو معاویہ کا وزیر تھا اور اپنی خباثت میں مشہور تھا اس موقع پر 'اروی' سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے :: ان بیکار کی باتوں کو بند کر اے گمراہ بوڑھی عورت۔
اروی کہتی ہے:تو کون ہوتا ہے بیچ میں بولنے والا؟ اور تجھ سے کیا مطلب ہے؟
حاضرین کہتے ہیں کہ :یہ عمر و عاص ہے معاویہ کا وزیر ۔
اروی ۔۔ اب تو بھی اس لائق ہو گیا کہ زبان چلائے اے عمرو عاص؟تیرے لئے بہتر ہے کہ تو صرف اپنے کام سے کام رکھ۔ تجھے قریش کی باتوں سے کیا مطلب؟
ہاں ! تجھے قریش سے کیا کام ؟تیرے حسب و نسب کو سب جانتے ہیں ۔ تیرے ماں مکًہ کی مشہور گانا گانے والی تھی اسکی حرام کام سے ہونے والی آمدنی اسکے سب ہم پیشہ افراد سے زیادہ تھی ِ، ہاں ! وہ تو ہی تو ہے کہ جب دنیا میں آیا تو چھ ٦ لوگوں نے تیرا باپ ہونے کا دعوہ کیا تھا۔
عمرو عاص یہ سب حقیقتیں سن کر خاموش ہوجانے میں ہی اپنی مصلحت دیکھتا ہے لیکن اسی بیچ مروان بن حکم بول اٹھتا ہے :'' اے گمراہ بوڑھی عورت! تیری انکھوں کا نور بھی تیری عقل کی طرح زایل ہوگیا ہے اور اسی بنیاد پر تیری گواہی اور تیری باتیں قابل قبول نہیں ہے۔
اب جب 'ارو ی 'کی عقل کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں کے نور پر بھی سوال اٹھا تو اروی نے مروان کواسیا جواب دیا کہ جو اسکے سلامتئی عقل اور حافظہ کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں کے نور کی سلامتی پر بھی گواہ تھا اور پورا دربار سنکر خاموش ہوگیاکسی نے یہ نہیں کہا کہ اے' اروی تو جو مروان کی ظاہری شکل بیان کر رہی ہے مروان کی چکل ایسی نہیں ہے
'اروی' کہتی ہے: اے کم ظرف بچہ! اب تو بھی زبان چلانے لگا قسم خدا کی تو '' حکم ''سے زیادہ حارث بن کلدہ کے غلام سے زیادہ شباھت رکھتا ہے ۔ہاں، ان نیلی آنکھوں ۔ گھنگھرالے بالوں اور اپنے چھوٹے قد ہونے کی وجہ سے تو کوئی بھی شباھت ''حکم'' جیسے بلند قامت اور گینہوئے رنگ والے مرد کے ساتھ نہیں رکھتا۔
تیری 'حکم 'کے ساتھ نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک چھوتے قد کے پست نسل گھوڑے کی نسبت ایک با نسل عربی گھوڑے سے دی جائے۔ (اگر تجھے شک ہے میری باتوں پرتو) بہتر ہے کہ تو اس بات کو اپنی ماں سے پوچھ لے اگر وہ سچ بولیگی تو تجھے تیری حقیقت سے آشنا کرا دیگی۔
اسکے بعد اروی نے معاویہ ی طرف رخ کیا اور کہا :قسم خدا کی تو ہی ہے جس نے ان پست لوگوں کو ہم بنی ہاشم کی گردن پر مسلًط کر دیا ، تو ہی اس ماں کا بیٹا ہے کہ جس نے جنگ احد میں جناب حمزہ کہ خدا ان پر رحمت کرے ، کے قتل کے بعد بے باک ہو کر یہ شعر پڑھے تھے::
نحن جزیناکم بیوم بدر ۔۔ والحرب یوما لحرب ذات سعر
ما کان عن عتبہ لی من صبر ۔۔ ابی و عمی و اخی و صھری
ْ شفیت و حشی غلیل صدری ۔۔ شفیت صدری و قضیت نذری
فشکر وحشی علٰی عمری ۔۔ حتی تغیب اعظمی فی قبری
ترجمہ:۔
ہم نے جنگ بدر کا انتقام تم سے لے لیا ، آج جبکہ آتش جنگ پوری طرح رو شن ہے ہم آج اپنے باپ ، بھائی، چچا ، اور داماد کے اابتقام لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیںِاور یہ وحشی ہے کہ جسنے ہمارا انتقام مسلمانوں سئے لے لیا اسنے حمزہ کو قتل کر دیا اور ہمارے دلوں میں سلگتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کیا ، میں جب تک زندہ ہوں اس وحشی کا شکریہ ادا کرتی رہونگی بلکہ میری ہڈیاں تک قبر میں بھی اس وحشی کا ژکر ادا کرینگی ۔
اب اروی' کہتی ہے :۔
ہاں ! اے مسند خلافت پر بیٹھنے والے ، تو آج خلافت کا دعوہ کرتا ہے تو اسی ماں کا بیٹا ہے کہ جس نے رسول ۖ کے چچا حمزہ کی شھادت کے بعد اس طرح اپنی خوشی کا اور سرور کا مظاھرہ کیا اور اسکے قاتل کی شکر گزار رہی ۔
اور جان لے کہ وہ میں ہی تھی کہ جس نے تیری ماں کے اشعار کے جواب میں یہ ایمان سے بھرپور اشعار کہے تھے:۔
یابنت رقاع عظیم الکفر ۔۔۔ خزینت فی بد ر و غیر بدر
صبحک اللہ قبیل الفجر ۔۔۔ بالھا شمین الطوال الزھر
لکل قتاع حسام یفری ۔۔۔ حمزہ لیثی وعلی صقری
اذ ا رام شیب و ابوک غدری ۔۔۔ اعطیت وحشی ضمیر الصدر
ھتک وحشی ھجاب الستر ۔۔۔ ما للبغایا بعدھا من فخر
ترجمہ::۔
اے احمق اور کافروں کے سردار کی بیٹی تمھاری رسوائی اور ضلالت کا ڈنکا ''بدر'' میں بھی بجا اور غیر بدر میں بھی تم بدنام زمانہ ہوں خدا انشاللہ صبح کے طلوع ہونے سے پہلے تم لوگوں کو بنی حاشم کے بلند قامت اور شجاع مردوں کے ذریعہغم میں مبتلا کریگا جو تیز اور سر اڑانے والی تلواروں کے ذریعہ تمہاری فوج کا مقابلہ کرینگے ۔
جان لو کہ حمزہ ہمارے لشکر کا شیر تھا اور علی ہمارے لشکر کا شکاری باز ہے ۔
آہ افسوس کہ تم لوگوں نے دھوکے اور فریب کے ذریعہ اور اس بدکار وحشی کے زریعہ حمزہ کو قتل کر دیا اور حیا اور غیرت کے پردہ کو چاک کر دیا ۔ تم گمان کرتے ہوں کہ یہ دھوکے بازی اور فریب کاری ھجو کرنے والی عورتوں کے لئے فخر و مباھات کا سبب بنیگی۔
یہ سب حقیقت سننے کے بعد سب کے ثہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں معاویہ مروان ور عمر و عاص سے کہتا ہے کہ :۔وائے ہو تم پر! تم لوگوں کی وجہ سے مجھے ناروا اور وہ باتیں سننی پڑی کہ جنکا سننا مجھے پسند نہیں ۔ اسکے بعد 'اروی' کی طرف رخ کرتا ہے اور کہتا ہے :۔ اے پھوپھی ان زنانہ قصًہ کو چھوڑیں اور اپنی حاجت بیان کریں ۔
اروی کہتی ہے:۔ حکم دے کہ مجھے دو ہزار دینار اور دو ہزار دینار اور دو ہزار دینار عطا کئے جائیں ۔
معاویہ:۔ بہت بہتر ۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ پہلے دو ہزار دینار کا کیا کرونگی؟
اروی :۔ پہلے دو ہزار دینار سے کچھ قابل کشت زمین اور ایک پانی اک چشمہ خریدنا چاہتی ہوں تاکہ حارث بن عبد المطلب کے بچًے اس میں کھیتی کریں اور تمام عمر انکے لئے ذریعہ معاش فراہم رہے۔
معاویہ:۔ بہت بہتر ! دوسرے دو ہزار دینار کا کیا کرونگی؟
اروی:۔ دوسرے دو ہزار دینار کو عبدالمطلب کے بچوں کی شادیوں پر خرچ کرنا چاہتی ہوں۔
معاویہ:۔ بہت بہتر:۔ تیسرے دو ہزار دینار سے کیا کرنا چاہتی ہوں؟
اروی:۔ ان دو ہزار دینار سے میں اپنی ذاتی ضروریات پوری کرونگی اور خانئہ خدا کی زیارت کو جائونگی۔
معاویہ:۔ بہت خوب ، چھ ہزار دینار تجھے دئے جاتے ہیں۔
معاویہ اپنی ناقص عقل سے سوچتا ہے کہ چھ ہزار دینار پاکر اروی کا علی کے بارے میں نظریہ بدل جائیگا اسی لئے کہتا ہے :۔ لیکن جانتی ہے اگر علی زندہ ہوتے اور میری جگہ علی ہوتے تو تجھے یہ سب مال عطا نہ کرتے ۔
لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ علی کی محبت جس دل میں ہوتی ہے اسکی نظر میں مال دنیا کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی 'اروی' جواب میں کہتی ہے :۔ ہاں معاویہ تونے بالکل صحیح کہا ،علی خدا کے فرمان پر عمل کرتے تھے اور لوگوں کے مال میں خیانت نہیں کرتے تھے۔ لیکن تو خدااور بندگان خدا کے اموال میں خیانت کرتا ہے ۔ بیت المال کو، جو کہ سب مسلمین کا حق ہے اپنی مرضی سے ایسے لوگوں کو دیتا ہے جو اسکے حقدار نہیں ہیں اسکے باوجود کہ تو جانتا ہے خدا نے حق کو حقدار کے لئے فرض قرار دیا ہے لیکن تو یہ جانتے ہوئے بھی اس پر عمل نہیں کرتا، وہ علی تھے کہ جنہونے ہمیں ہمارہ جائز حق لینے کے لئے دعوت کی لیکن افسوس کہ تونے انہیں جنگ میں مشغول کر دیااور انہیں لوگوں کے امور کا صحیح طریقہ سے انتظام نہ کرنے دیا ۔تونے انہیں مہلت ہی نہ دی کہ وہ لوگوں کے کاموں کی اصلاح کرتے اور انکی آسائش کا انتظام کرتے۔میں نے تجھ سے تیرے مال میں سے کوئی چیز طلب نہیں کی پھر تو کیوں مجھ پر احسان جتا رہا ہے میں نے صرف اپنا حق اوربیت المال میں سے اپناجائز حصہ تجھ سے مانگا ہے اور میں ہر گز لوگوں کے حقوق کہ پایمال نہیں کرنا چاہتی۔
اے معاویہ خدا تیرے منھ کو توڑ دے کس بری طرح تو علی کا نام لے رہا ہے اور کس برے طریقہ سے انکو یاد کر رہا ہے۔
اسکے بعد اروی اشکبار آنکھوں کے ساتھ مولا کی شان میں ان اشعار کو پڑھتی ہے۔
الا یا عین ویحک اسعدینا ۔۔ الا و ابکی امیرالمومنینا
رزنا خیر من رکب المطایا ۔۔ وفارسھا ومن رکب السفینا
ومن لیس النعال او احتذاھا ۔۔۔ ومن قر ء المثانی والمئینا
اذا استقبلت وجہ ا ی حسین ۔۔ رایت البدر راع الناظرینا
فلا واللہ لا انسی علیا ۔۔۔ و حسن صلوتہ فی ا لراکعینا
ا فی الشھر الحرام فاجتمعونا ۔۔۔ بخیر الناس طرا اجمعینا

مضمون اشعار::۔۔
ہاں اے میری آنکھو میری مدد کرو ، آنسو بہائو اورگریہ کرو،امیرالمومنین علی کو کھو دینے پر، ہائے ہم نے کس بزرگ شخصیت کو ہاتھ سے کھو دیااور کس بلا اور سوگواری میںمبتلا ہو گئے۔ وہ شہسوار میدان جنگ کہ زمانہ کی آنکھوں نے اسکے جیسا کوئی دوسرا نہیں دیکھا،اور کیسا قارئی قرآن کہ اسکی طرح کسی نے قرآن پر عمل نہیں کیا ،آہ ، جب بھی اسکے چہرئہ مبارک پر نظر پڑتی تھی محسوس ہوتا تھا گویا ماہتاب کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، قسم خدا کی میں علی کو ہرگز نہیں بھول سکتی اور کبھی بھی ان کی ان نمازوں ،ان اذکار اور ان مناجاتوں کو فراموش نہیں کر سکتی ۔ہائے افسوس ؛ کہ ماہ حرام ،ماہ مبارک رمضان میں وہ حادثہ پیش آیااور ہم نے بہترین انسان کو کھو دیا۔
'اروی ' کے اشعار نے سامعین اور حاضرین کو تعجب اور سوز و غم میں مبتلا کر دیا ؛ معاویہ اپنے دربار والوں کی یہ حالت دیکھ کر کہتا ہے کہ :، اے پھوپھی جان آپکے چھ ہزار دینار حاضر ہیں انہیں دریافت کریں اور جس طرح آپکا دل چاہے آپ انہیں خرچ کریں اور جب بھی آپ کو کوئی حاجت ہو میرے لئے لکھ بھیجئے میں پوری کر دونگا۔
اروی کہتی ہے:۔ نہیں مجھے تجھ سے کوئی حاجت نہیں ہے اور دربار سے باپر چلی جاتی ہے۔
معاویہ حاضرین کی طرف چہرہ کرتا ہے اور کہتا ہے : اگر تم سب کے سب اسکے مخالف ہو جاتے اور اسکے خلاف بات کرتے تب بھی تم سب کے سب اسکا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے وہ تم میں سے ہر ایک کو مناسب اور دندان شکن جواب دیتی۔
یہ تھی ہماری اس تحریر اور تاریخ اسلام کو اپنی حق گوئی اور ولایت علی کے چراغوں سے روشن کرنے والی اروی بنت حارث ابن عبدالمطلب کہ جنہونے معاویہ اور اسکے خبیث اصحاب کو رسوا کرنے کے ساتھ ساتھ محمد و آل محمد کی امت پر فضیلت کو ظاہر کیا ۔سلام ہو ہمارہ ان شیر دل خواتین پر کہ جو اپنی سیرت کے ذریعہ صرف عورتوں ہی کے لئے نہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی نمونئہ عمل بن گئی ۔
خدا ووند عالم سے دعا ہے کہ اس ولایت علی سے شرابور خاتون کے طفیل ہم سب کے دلوں کو محبت محمد و آل محمد سے نورانی فرمائے اور انکے دشمنوں سے اور انکے جیسے اعمال سے دوری بنانے کی توفیق دے آمین

Friday, April 3, 2009

Ali , ki sher dil chahne vali

دارمئیہٍ حجونیہ

دارمییہ ایسی خاتون تھی جو فصاحت اور بلاغت مین درجئہ کمال پر فائز تھی ۔حق بات کہنے میں کسی سے اسے کوئی خوف نہیں تھا اور اپنی بات کہنے میں کسی سے اسے کوئی ڈر بہ تھا.یہاں تک کہ معاویہ کی سطو ت اور قدرت کا بھی اس کو کوئی ڈر نہ تھا ۔ اسکی حاضر جوابی مشہور تھی ۔کوئی بھی اگر اس سے کوئی سوال کرتا تھا ت تو بہترین طرز بیان کے ساتھ ا اسکا جواب سنتا تھا ۔ دارمیئہ کا رنگ کالا اور پیٹ نکلا ہوا تھا ۔دارمیہ کا تعلق قبیلہ بنی کنانہ سے تھا ۔ قبیلہ بنی کنانہ مکہ کا ایسا قبیلہ تھا جو امیر المومنین کے شدیدچاہنے والوں میں شمار ہوتا تھا .اس قبیلہ کی سکونت مکہ کی حجون نامی جگہ پر تھی آج بھی یہ محلہ اسی حجون نام سے باقی ہے ۔ اسی محلہ میں جناب ابو طالب کا مشہور قبرستان جنة المعلًہ واقع ہے ۔معاویہ کو اس شیر دل خاتون کے مردانہ کارناموں اور شجاعت بیان کی جب خبر ملی تو اسے سخت غصہ آیا ۔اور وہ ہمیشہ اسی تلاش میں رہتا تھا کہ اس شیر دل اور علی کی چاہنے والی خاتون سے نزدیک سے ملاقات کرے اور اسکے کاموں کے لئے اسکی سرزنش کرے ۔
ایک سال معاویہ حج کے لئے مکہ گیا تو وہاں اسنے دارمئہ کے حالات کے بارے میں جستجو کی ۔اسے بتایا گیا کہ زندہ ہے اور صحیح سلامت ہے ۔ معاویہ نے حکم دیا کہ دارمئیہ کو اسکے سامنے پیش کیا جائے ۔ دارمئیہ کو اسکے سامنے پیش کیا جاتا ہے اور اب دارمئیہ معاویہ کے حضور میں ہے۔۔۔۔۔۔۔
علی کو کیسا پایا؟
معاویہ۔۔ کسیی ہوں ؟اے حام کی بیٹی ١(حام جناب نوح کے فرزند تھے اور کہا جاتا ہے کہ انکا رنگ سیاہ تھا)
دارمئیہ ۔۔ میں حام کی بیٹی نہیں ہوں ، اگر تیرا قصد عیب جوئی ہے ،تو جان لے کہ میں قبیلئہ بنی کنانہ سے ہوں اور تیرا باپ بھی اسی قبیلہ سے تھا ۔
معاویہ ۔۔ سچ کہا تم نے ۔ جانتی ہوں تمہیں کیوں احضار کیا گیا ہے ؟
دارمیہ ۔۔مجھے علم غیب تو ہے نہیں ۔غیب کا علم تو بس خدا کے پاس ہے۔
ُمعاویہ۔۔میں جاننا چاہتا تھا کہ کیا تم علی کو دوست رکھتی ہوں اور مجھ اپنا دشمن سمجھتی ہوں۔
دارمئیہ۔۔ مجھے اس سوال کے جواب سے معاف رکھ ۔ ان باتوں کو کسی دوسرے وقت کے لئیے رہنے دے۔
معاویہ ۔۔ ہر گز ایسا ممکن نہیں تمہیں جواب تو دینا ہی ہوگا۔
دارمئیہ۔۔ اب جب تو خود ہی اصرار کر رہا ہے تو خدا کی قسم کھا کر کہتی ہوں کہ علی کو دوست رکھتی ہوں علی کو چاہتی ہوں کیونکہ علی اپنی رعایا کے بیچ میں عدل سے کام لیتے تھے ، عدل انکا شیوہ تھا ،اموال عمومی کی یقسیم کرتیء ہوئے برابری کا پوری طرح خیال رکھتے تھے،بڈا اور چھوٹا انک نزدیک برابر تھے امیر و غریب انکے لئیے فرق نہیں کرتے تھے۔غریب اور فقیر وں کے حامی اور دوست تھے۔دیندار افراد کو پوری عزت دیتے تھے اور رسول خدا نے انیکی ولایت کو سب پر واجب قرار دیا تھا ۔۔۔۔۔اور میں تجھے دشمن سمجھتی ہوں کیونکہ تونے اس سے جنگ کی کہ جو خلافت کا تجھ سے زیادہ حقدار تھا ، تونے اس چیز کو طلب کیا کہ جس پر تیرا حق تھا ہی نہیں،تونے مسلمانوں کا خون بہایا اور انکے بیچ اختلاف ڈال دیا ، تونے آپس میں تفرقہ پھیلایا تیرے فیصلے ظالمانہ اور تیرے حکم ھوا اور حوس کی بنیاد پر ہوتے ہیں.........
معاویہ یہ سنکر بہت ناراض ہو گیا اور اب گالیوں پر اتر آیا اور کہا ::۔موٹی عورت ؛بڈی چھاتیوں اور پھیلے ہوئے کولہوں والی یہ کیسی باتیں کر رہی ہوں ۔
دارمئیہ نے کہا :: خدا کی قسم یہ باتیں جو تونے میرے بارے میں کہی ہیں یہ سب صفات تیری ماں ''ھند'' کے بارے میں ضر ب المثل تھے . معاویہ نے جب دیکھا کہ دارمئیہ کے ساتھ سختی اور بد تمیز ی سے کوئی فایدہ نہیں ہے یہ تو ساری تاریخی حقیقتوں کو کھولے ڈال رہی ہے اور بنا کسی خوف کے سب حقیقتوں کو بیان کئے دے رہی ہے۔ تو کہتا ہے :ان باتوں سے میرا کوئی براقصد نہیں تھا ؛ اگر عورت کا پیٹ بڑ ا ہو تو اسکے بچے بھی اچھے ہوتیں ہیں اور اگر کسی عورت کے پستان بڑے ہوں تو اسکے شیر خوار بچوں کے لئے دودھ کی کمی نہیں رہتی .اور اگر کسی عورت کے کولھے پھیلے ہوئے ہوں تو اسے بیٹھنے میںآسانی ہوتی ہے ۔اچھا بتائو زرا ،کیا تم نے علی کو دیکھا ہے؟
دارمئیہ۔۔ہاں انکے ضور مبارک میں شرفیابی قسمت ہوئی ہے۔
معاویہ۔۔تم نے علی کو کیسا پایا؟
دارمئیہ۔۔خدا کی قسم وہ ایسے انسان تھے کہ خلافت اور حکومت نے جس طرح تجھے فریب دیا ہے، انہیں فریب نہ دے سکی ۔دنیا کا مال اور اسکی جگمگاہٹوںنے جس طرح تجھے حق پر عمل کرنے سے روک دیا ہے علی کو انکا فرض نبھانے سے نا روک سکی ۔
معاویہ ۔۔ انکی زبان سے انکی کوی بات سنی ہے ؟
دارمئیہ۔۔ہاں سنا ہے،اوہ کس قدر دل نشین تھی میرے مولا کی باتیںجو دلوں سے جھل اور نادانی کے زنگ کو صاف کر دیتی تھیں........چونکہ دل سے نکلتی تھی اسلئے سیدھے دل میں جگہ بناتی تھیں۔
معاویہ۔۔۔۔ صحیح کہا تونے۔اچھا بتائو تمہاری کوئی خواہش ہے مجھ سے؟
دارمئیہ۔۔ اگر میں حاجت بتائوں تو کیا تو اسے پوری کریگا ؟
معاویہ۔۔ہاں
دارمئیہ۔۔اہپنے کارندو کو حکم دے کہ مجھے ١٠٠ اونٹ ساربان کے ساتھ عطا کریں۔
معاویہ۔۔ ١٠٠ اونٹوں کا کیا کرونگی ؟
دارمئیہ۔۔ میں چاہتی ہوں کہ ان کے دودھ سے فقیر بچوں کی غزا فراہم کروں ۔ انکی آمدنی سے کچھ بے سرو سامان لوگوں کی زندگی کو رونق بخشوں،قبیلوں کے بیچ ہونے والے مالی اختلافات کو حل کروں ، اور جنگ کرنے والوں کے بیچ صلح قائم کروں۔
معاویہ۔۔اگر تمھاری حاجت کو پورا کردوں تو کیا میرا بھی تیرے دل میں وہی مقام ہوگا جو علی کا ہے؟
دارمئیہ۔۔نہیں ہر گز نہیں ،کیا ہر چشمہ کا پانی میٹھا ہوتا ہے ؟ کیا کانٹوں سے بھرا بیابان گلستان کی برابری کر سکتا ہے ؟کیا ہر جوان مالک کے برابر ہو سکتا ہے؟( مالک سے مراد مالک بن نویرہ عرب کا جواںدل مرد ہے ،یہ اپنے عقیدہ سے دفاع اور ابو بکر کی خلافت کو زکواة نہ دینے کی وجہ سے خالد بن ولید کے ہاتھوں شھید ہو گیا)
نہیں خدا کی قسم ؛ علی تو دور کی بات ہے علی سے بہت چھوٹابھی میری نظر میں تجھ سے کہیں بڈا اور با منزلت ہے۔
یہ سنکر معاویہ زیر لب شعر کے یہ دو بیت زمزمہ کرنے لگا ۔۔۔
اذا لم اعد بالحلم منی علیکم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فمن ذالذی بعدی یومل للحلم
خذیھا ھنیئا واذکری فعل ماجد ۔۔۔۔۔۔۔۔ جزاک علی حرب العداوہ بالسلم
ترجمہ۔۔اگر میں تمہارے ساتھ حلم کے ساتھ پیش نہ آئوں اور بردباری کا مظاہرہ نہ کروں تو کون ہے جو تمہاری حق گو زبان کے سامنے صبر سے کام لے۔اس اموال کو لے جا اور جان لے کہ اس سب دشمنی کی جزا بھی میں نرمی سے دے رہا ہوں۔
معاوئہ نے سوچا تھا کہ یہ مال لیکر اور یہ باتیں سنکر شاید دارمئیہ کا دل اسکے لئے کچھ نرم ہو جائیگا اسی لئے پوچھتا ہے
معاویہ۔۔۔دارمئیہ اگر علی آج ہوتے تو قسم خدا کی ان میں سے ایک بھی اونٹ تجھے نہ دیتے ۔
دارمئیہ ۔۔۔۔ ہاں ، خدا کی قسم جانتی ہوں کہ اگر علی زندہ ہوتے تو مسلمانوںکے مال میں سے ایک بال بھی کسی کو نا حق نہ دیتے ، لیکن میں اس مال کو انشاللہ مسلمانوں کے نفع میں ہی خرچ کرونگی۔۔
یہ تھی ہماری تاریخ کی ایک شیر دل شیعہ خاتون کے جس نے ظالم و جابر کے سامنے بھی اپنی جان کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے مولا کی فضیلت بیان کی اور ظالم کی حقیقت کو روشن کر دیا بیشک یہی سب کردار تو ہیں جو شیعت کی تاریخ کی پیشانی پر سنھری جھومر کی طرح رونق افروز ہیں ۔ سلام ہو ہمارا دارمئیہ پر اور اسکے جزبئہ ولایت پرخدا سے دعا ہے کہ ہمیں دارمئئیہ کی دکھائی راہ پر چلنے کی توفیق دے ۔آمین

Thursday, April 2, 2009

haq o batil amirul momenin ki nigah main

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حق وباطل نہج البلاغہ میں

قال رسول اللہ ۖعلی مع الحق والحق مع العلی ( ( بحار الانوار ،ج٣٨، ص٣٠)
انسان کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ حق کو دوست رکھتا ہے اور باطل کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جو انسان کی فطرت کا لازمہ ہے اسی لئے ہم جب تاریخ بشریت کا مطالعہ کرتے ہیں تو قدم قدم پر بہت سے باطل پرستوں پر نظر پڑتی ہے کہ جو اپنی باطل اغراض واھداف تک پہونچنے کے لئے پیروانا حق ہونے کا دعوہ کرتے ہیں تاکہ اس فطرت حق پسندی سے فائدہ اٹھا سکیں اور جب ایسے لوگ اپنے مقاصد تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر حق پرستی کا لبادہ اتار دیتے ہیں اور اپنا اصلی اور مکروہ چہرہ سامنے لاتے ہیں تو انسان اس وقت اپنے آپ کو ٹھگا ہوا اور فریب خوردہ پاتا ہے۔
در حقیقت باطل کا ھدف اور اصلی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کو نیست ونابود کر دے مگر چونکہ فطرت انسانی حق پسند اور ضد باطل ہے اسلئے گوارہ نہیں کرتی کہ حق مغلوب اور باطل فتحیاب ہو جائے
اسی لئے اھل باطل جب اپنی ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی یہدعوہ نہیں کرتے کہ ہمارا مقصد باطل ہے ہم باطل کے پیرو ہیں بلکہ دعوہ کرتے ہیں کہ ہم حق پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ حق کا پرچم بلند کلریں ۔ وہ خود کو راہ حق کا مسافر اور باطل کا مخالف بنا کر پیش کرتے ہیں قرآن ان کی فطرت کو اس طرح بیان فرماتا ہے
(اذا قیل لھم لا تفسدو فی الارض قالو انما نحن مصلحون ) جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں امن پھیلا رہے ہیں ۔ در حقیقت ایدے لوگ چاہتے ہیںکہ حق وباطل کو اس طرح ملا دیا جائے کہ عام انسان جب پہلی نظر مسئلہ پر ڈالے تو وہ خود کو ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہوا پائے کہ جہاں سے ایک راہ حق کی طرف اور دوسری راہ باطل کی طرف جاتی ہے مگر اس کے لئے یہ تشخیص دیان مشکل ہو کہ کون سا راستہ حق کی طرف جاتا ہے اور کون سا باطل کی طرف اور جب انسان اپنے راستے پر آکر کنفیوز (se confu ) ہو جائے تو اھل باطل لباس حق پہن کر سامنے آجاتے ہیں اور فطرت انسانی کو اپنے اھداف باطلہ تک پہونچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
کبھی کبھی حقو باطل کے امتزاج اور آمیزش کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ بڑے بڑے مفکرین اور صاحبان نظر ان اشتابہ اور خطاء فکری کے شکار ہو کر تمام عمر باطل کو ثابت کرنے میں گزار دیتی ہیں ۔ جب بڑے بڑے مفکریں حق و باطل میں تشخیص نہیں دے پاتے ہیں تو کوئی ایسا پیمانہ ہو کہ جس کے اعتبار سے پہچانا جائے سکے کہ کیا حق ہے اور کیا باطل ہے اور وہ پیمانہ جز اس کے کوئی نہیں ہو سکتا ہے جس کے بارے میں رسول حق ۖ نے فرمایا ہو ( علی مع الحق والحق مع العلی ) علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے سا تھ ہے ۔
ہمارا مقصد اس تحریر میں قرآن ونہج البلاغہ کی روشنی میں حق وباطل کی آمیزش سے پیدا ہونے والے بحران اور حق و باطل کی جنگ میں اکثر باطل کی پیروزی اور غلبہ کے اسباب ، اور حق کی فتح کے لئے کیا ضرورت ہے کے بارے میں بیان کرنا ہے ۔
حق وباطل کے بارے میں کچھ بیان کرنے سے پہلے ہمیں حقوباطل؛ کے بارے میں جاننا پڑے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟
کلمہ( حق ) نہج البلاغہ میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے حق عدل کے معنی میں استعمال ہو ا ظلم کے مقابلہ میں اور کلمہ حق جس کے لئے استعمال ہوا ہے وہ ( صحیح) کا ہے غلط یا باطل کے مقابلہ میں ۔
لیکن باطل کیا ہے؟اس کے لئے فصیح تعریف یہی ہے کہ باطل ایک خود کا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ تو حق کی مخالفت کا نام ہے اس کا مستقل کوئی وجود نہیں ہے بلکہ حق کے راستے سے ہٹ جانے کا نام باطل ہے ۔
اس کے لئے قرآن سے بہتر مثال کوئی نہیں دے سکتا ہے قرآن فرماتا ہے کہ اس نے (اللہ نے) آسمان سے پانی برسایا جو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا ( جب اس نے سیلاب کی شکل لی) اور سیلاب میں اس پانی پر جوش کھانے کی کی وجہ سے جھاگ آگیا ۔ اور اس دھات (فلذ) پر بھی جھاگ آگیا جیسے آگ پر زیور بنانے کے لئے پگھلاتے ہیں ۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان فرماتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہونچاتا ہے ( پانی ،دھات، وغیرہ) زمین پر باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثال بیان فرماتا ہے ۔
قرآن نے یہاں پر حق و باطل کے مسئلہ کوایک آیة کے ذریعہ واضح کر دیا ہے کہ حق کو پانی اور دھات ( جیسے سونا ،چاندی وغیرہ)سے وباطل کو کو ان پر آجانے والے جھاگ سے تشبیہ دی اور روشن کر دیا کہ جھاگ کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ یہ تو پانی اور دھات ( یعنی حق ) کے اوپر کچھ وقت کے لئے آجاتا ہے جھاک ہمیشہ اوپر دکھائی دیتاہے لیکن جیسے ہی جوش تھنڈا ہو جاتا ہے تو یہ جھاگ فنا ہوجاتا ہے اور جو حق ہوتا ہے وہ باقی رہ جاتا ہے ۔
یہاں پر خدا نے حق کے ثابت رہنے اور باطل کے ختم ہو جانے کی طرف بھی ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔جو لوگوں کو فائدہ پہونچاتا ہے باقی رہ جاتا ہے ، یعنی حق اس لئے باقی رہ جاتا ہے کیونکہ یہ دوسروں کے لئے مفید ہوتا ہے اور باطل اس لئے فنا ہو جا تا ہے کیونکہ اس میں کسی لئے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے غیر مفید ہوتا ہے ۔
باطل کا مزاج جولانیت والا ہوتا ہے یعنی بہت زور وشور کے ساتھ آتا ہے اور حق کو چھپا لیتا ہے لیکن چونکہ یہ بے بنیاد ہوتا ہے اور ریشہ دار نہیں ہوتا ہے اس لئے جیسے ہی یہ جولانیت یہ جوش ختم ہوجاتا ہے یہ فنا ہو جاتا ہے اور حق دوبارہ اوپر آ جاتا ہے چونکہ باطل کی کوئی اصل نہیں ہوتی بنیاد نہیں ہوتی اسی الئے اس کے لئے بقاء اور دوام نہیں ہوتا جبکہ حق ریشہ دار ہوتا ہے اس لئے اس میں دوام ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ( قل جاء الحق زھق الباطل ان لاباطل کان زھوقا )اے حبیب کہدو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیااور باطل تو تھا ہی نابود ہونے کے لئے ۔
حق کے جو دو معنی نہج البلاغہ میں ذکر ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہی کہ علی نے اپنی حکومت کی بنیاد ہی حق وباطل پر رکھی تھی اورتمام امور میں حق وباطل کو اجراء کیا چاہے وہ بیت المال کی تقسیم ہو یا امور اجتماعی کی اصلاح ۔چاہے عھدہ وامارت عطاء کرنا ہو یا کسی کو عھدہ سے معذول کرنا ہو ،علی علیہ لاسلام نے نظام عدل کو اس دور میں اجراء کیا جب رسول اکرم ۖکی حیات طیبہ کو ٢٥ سال گزر چکے تھے اور ظلم و بے نظمی معاشرہ کو اپنے دامن میں پھنسا چکی تھی ، بدعات رائج تھیں اور دور جہالت کے آثار جہان اسلام میں نمودار ہونے لگے تھے ۔
یہ علی علیہ السلام کی حق پسندی تھی جسے بہت سے منحرف افراد برداشت نہیں کر سکتے تھے ، کیونکہ اجراء عدالت سے ان کے ذاتی مفاد متاثر ہورہے تھے اور نتیجہ کے طور پر ہم دیکھتے ہیںکہ علی علیہ السلام کو اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں کتنی مشکلوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔
علی علیہ لاسلام کے دور حکومت کا مطالعہ کرتے ہیں تو سول اٹھتا ہے کہ جنگ جمل کیوں واقع ہوئی ؟حضرت علی نے نہج البلاغی میں متعدد مقامات پر روشنی ڈالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ جمل کے عوامل میں سے ایک یہ تھا کہ طلحہ وزبیر جو کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں رسول اکرم ۖ کے دومعروف صحابی اور دنیائے اسلام کی مشہور شخصیتیں تھیں ۔ امیر المومنین کی حکومت کے ابتدائی ایام میں مولا کے پاس آتے ہیں اور چاپلوسانہ لہجہ میں کہتے ہیں : کہ آپ ہم سے حکومت کے امور میں مشورت کیوں نہیں کرتے ؟
وہ دونوں در حقیقت مشاور حکومت بن کر قدرت کا لطف اور لذت اتھانا چاہتے تھے امیر المومنین نباض فطرت تھے ان کا منشا سمجھ گئے اور فرمایا (لقد نقمتھا یسیرا وارجئاتما کثیرا الا تخبرانی ای شیء کان لکما فیہ ح١ق دفعتکما عنہ ام ای شیء قسم استاثرت علیکما بہ ، ای حق دفعہ الی احد من المسلمین ضعفت عنہپ ام جھلتہ ام اخطات بابہ واللہ ما کان لی فی الخلافہ رغبة ولا فی الولایة اربة ولکنکم دعوتمونی الیھا وحملتمونی علیھا )تم لوگ تھوڑے سے کے نا ملنے پر ناراضی تھے لیکن جو زیادہ تمھیں ملا اسے پس پشت ڈال دیا ۔ مجھے بتائو کہ تم کسی چیز میں حق رکھتے تھے اور میں نے تم اس حق کے حاصل کرنے سے روکا ہو ، یا کون سا ایسا فائدہ تھا جو خود حاصل کیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو ، یا کون سا یسا حق یا مسئلہ تھا جو مسلمین میرے پاس لائے ہوں اور میں اس کے بیان سے عاجز ہو گیا ہوں اور نہ بتا سکا ہوں یا مجھے اس کا علم نہ ہو یا بتانے میں خطا یا اشتباہ سرزد ہوئی ہو خدا کی قسم علی کو تمہارے اوپر حکومت کرنے کی کوئی تمنا نہیں تھی تم لوگوں نے مجھے اس کی دعوت دی اور مجبور کیا کہ علی اس حکمیت کو قبول کرے ۔
طلحہ حسین ۔ مصری مصنف اپنی کتاب ( علی ونبوة ) میں لکھتا ہے کہ میں نے خدا اور رسول کے کلام کے بعد اتنا موثر اور منطقی کلام نہیں دیکھا جو کہ طلحہ اور زبیر جیسے افراد کے مقابلہ میں امام علی علیہ السلام نے بیا ن فرمایا ۔
اور پھر زمانے نے دیکھا کہ یہ لوگ جو کل امور مملکت میں علی سے درخواست کر رہے تھے کہ ان کی خدمات اور مشاورت لی جائے صرف طالب قدرت تھے اور طلب قدرت کے لئے ایک لشکر کے ساتھ میدان میں آگئے اور علی کو ناچاہتے ہوئے بھی جنگ جمل کا سامنا کرنا پڑا ۔
علی نے محکم طریقہ سے اور بصیرت الھی کے ساتھ اس جنگ کا سامنا کیا اور فتنہ جمل کو خاموش کیا ۔ یہ جنگ تو تمام ہو گئے لیکن اس کے نتائج حکومت عادلانہ امیر المومنین کے لئے مسئلہ ساز تھے بہت سے مسئلہ ایسے تھے جن سے علی کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو فتح کے باوجود جنگ روانی ہار جاتا جنگ کیسی جنگ تھی طلحہ وزبیر جیسی ہستیاں قتل ہوگئیں اور ام المومنین کو بری طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہاں پر لوگ اشتباہ میںپڑ گئے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ہے ۔ ایک طرف ام المومنین تھی اور ایک طرف امیر المومنین تھے ایک طرف طلحہ وزبیر جیسے صحابہ تھے اور دوسری طرف ابوذر وعمار جیسے جلیل القدر صحابہ ۔
یہاں تک کہ لشکر امیر المومنین میں بھی لو گ تردد میں پڑ گئے کہ حارث ابن لوط کہ جو جنگ جمل میں امیر المومنین کی طرف سے شریک تھا جنگ کے بعد امیر المومنین سے کہتا ہے کہ ( اترانی اظن اصحاب الجمل کانو علی الضلالة ) جواب میں فرماتے ہیں اے حارث تم بجائے اس کے کہ اپنے سر کے اوپر نگاہ ارتے اپنے قدموں کے نیچے نگاہ کرتے ہو ، بجائے اس کے کہ اپنی بصیرت کے ذریعہ اپنے ا مام کی پیروی کرتے جزئیات اور چھوٹی چیزوں کو یعنی ظاہر کو دیکھنے میں مشغول ہو گئے ہو اسی لئے آج حیران کھڑے ہو اور تعجب کر رہے ہو (انک لم تعرف الحق فتعرف من اتاہ و لم تعرف الباطل ، فتعرف من اتاہ ) تم حق کو نہیں پہچانتے ہو اسیلئے اصل حق کو نہیں پہچان سکے اور باطل کی شناخت نہیں رکھتے ہو اس لئے اصل با طل کو نہیں پہچان سکے ہو پھر کیسے ممکن ہے کہ تم اھل جمل کے باطل پر نہ ہونے کے بارے میں کوئی بات کہو جب کہ نہ تم حق کو پہچانتے ہو اور نہ ہی باطل کو ۔
یہ بیان حق کے اس مفہوم کے لئے تھا جو ( عدل )کے معنی رکھتا تھا اور جنگ صفین تک جو مسائل پیش آئے وہ اس حق کی مخالفت میں رونما ہوئے جو حق بہ معنای (عدل ) تھا لیکن جنگ صفین اور جنگ صفین کے بعد پر جب نظر کرتے ہیں تو وہاں پر چاہے حکمین کا مسئلہ ہو یا خوارج کی گمراہی ، حق باطل کے مقابلے میں صحیح کے معنی میں جو غلط کے مقابل میں ہے نظر آتا ہے جنگ صفین کے بعد حق ایک عقیدتی اور (idiological) مسئلہ بن کر سامنے آیا ( کلمة الحق یراد بہ بھا الباطل )علی علیہ السلام نے فرامایا کہ کلمہ تو حق ہے لیکن اس سے جو مطلب حاصل کیا جا رہا ہے وہ باطل ہے ، خوارج نے حکمین کے بعد جب نعرہ دیا کہ ( لا حکم الا للہ لو کرہ المشرکون )علی علیہ السلام نے خوارج کے ساتھ جو روش اختیار کی وہ بہت نرم اور با ملایمیت تھی ، علی مانتے تھے کہ جب تک یہ لوگ اور یہ فتنہ ایک عقیدتی مسئلہ اور سیاسی ایجنڈا بن کر مطرح ہے اور یہ لوگ قتل وغارت گری یا حکومت اسلامی کے ساتھ جنگ نہیں کرتے تب تک ان سے جنگ نہیں کی جائے گی ۔ یہاں تک کہ یہ لوگ نماز جماعت کے وقت مسجد میں داخل ہوتے اور علی کوخطاب کر کے اس آیة کی تلاوت کرتے جو مشرکین کے اعمال کے حبط اور نابود ہونے کی خبر دیتی ہے اور وہ یہ ہے (لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین) اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال حبط ہو جائیں گے برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائو گے ۔
علی علیہ لاسلام نے عجیب صبر کا مظاھرہ کیا اور انکی اصلاح کے لئے کوشش کرتے رہے لیکن خوارج اپنی بات پر اڑے رہے اور اپنے اس باطل نعرہ کی تکرار کرتے رہے ، صفین میں حکمیت قبول کر کے معاویہ اور علی دونوں مشرک ہو گئے ہیں اس لئے چاہیے کہ دوبارہ اسی میدان میں جہاں جنگ صفین واقع ہوئی تھی واپس چلیں اور پھر تین دن تک استغفار کریں اور دوبارہ سے جنگ شروع کریں ۔
علی نے انکے جواب میں فرمایا کہ : جب میں جب میں اس دن جنگ صفین میں کہ جب فتح ہم سے صرف چند قدم دور تھی اور میں تمہیں جنگ جاری رکھنے کے لئے تشویق کر رہا تھا کہ جنگ کو جاری رکھو حکمیت صرف ایک فریب ہے اور بس ۔ لیکن اس دن تم نے مجھے حکمیت قبول کرنے پر مجبور کر دیا اور جنگ کو جاری رکھنے سے منع کردیا مین نے مجبور ہوکر اپنے دشمن سے پیمان باندھ لیا اور حکمیت کو قبول کر لیا اور ابتم چاہتے ہو کہ علی اپنے پیمان کو توڑ دے پیمبر خدا ۖ اگر مشرکین سے پیمان باندھتے تو اسے بھی نہیں توڑتے تھے اب چونکہ علی پیمان باندھ چکا ہے اس لئے اسے نہٰ توڑ سکتا ۔
امیر المومنین خود خوارج کو اس دل کو لبھانے والے نعرہ ( لا حکم الا للہ ) کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں ( کلمة الحق یراد بھا الباطل، نعم لا حکم الا للہ ولیکن ھئولاء یقولون لا امرة الا للہ وانہ لابد للناس من امیر بر او فاجر )
یہ نعرہ جو خوارج نے بلند کیا ہے کہ کلمہ حق ہے لا حکم الا للہ علی بھی مانتا ہے کہ بیشک اللہ کے علاوہ کوئی اور حکم کے لائق نہیں ہے لیکن یہ جمعیت ( خوارج )کہتی ہے کہ کو ئی حاکم اور امیر نہیں ہے اللہ کے علاوہ اور اسکے ذریعہ جہان اسلام میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں ، اس لئے کہ لوگوں کو اپنے امور کے ادارہ اور سماج ومعاشرہ میں نظم وضبط کو باقی رکھنے کے لئے ایک حاکم اور امیر کی ضرورت ہے چاہے وہ حاکم اور امیر صالح ،نیک و ایماندار ہو چاہے بدکار اور فاسق وفاجر ۔(٨)یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کلمہ حق صحیح کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور باطل غلط کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب لوگوں کی فطرت کا تقاضہ حق پسندی اور باطل کی مخالفت ہے ، تو پھر باطل کیوں حق پر غالب آجاتا ہے جب بشر کی درونی خواہش ہوتی ہے کہ بساط ظلم سمٹ جائے مسند حق بچھا دی جائے تو پھر کیوں باطل حکومت کو حاصل کر لیتا ہے اور ایسا کیوں لگتا ہے کہ جامعہ اور سماج بھی باطل کو ہی پسند کرتا ہے ۔
جب ہم تاریخ حق وباطل کا مطالعہ کرتے ہیں تو باطل کی کامیابی اور حق کی ناکامی کے دو مہم عوامل سامنے آتے ہیں پہلا عامل اور سبب باطل کا حق کی شکل میں ظاہر ہونا ہے جیسا کہ پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں چونکہ باطل حق کی شکل میں سامنے آتا ہے اس لئے لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں اگر یہ نقاب حق اتار دی جائے تو ان کے لئے معاشرہ میں کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ( فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ، ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنہ السن المعاندین ) اگر باطل حق کی ملاوٹ اور امتزاج سے پاک ہو جائے تو حق پسندوں پر حق چھپا نہیں رہ سکے گا اور پہچان لیا جائے گا اور اگر حق باطل کی آمیزشاور ملاوٹ سے بچا رہے تو تو دشمنوں کو بہانا نہیں ملے گا اور ان کی زبانیں قطع ہو جائیں گی کہ کہہ سکیں گے چونکہ حق باطل کے ساتھ ملا ہوا تھا اس لئے ہم پہچان نہیں پائے اور دھوکا کھا گئے ۔
اھل باطل کی کامیابی کا دوسرا سبب ان کا آپس ،میں اتحاد اورانسجام اور حق پسندوں کا باھمی اختلاف ہے اھل باطل اپنے باطل ھدف کو حاصلکرنے کے لئے تو متحد ہو کر کوشش کرتے ہیں اور ااپنے رھبر کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے ہیں جب کہ اھل حق متحد نہیں ہوتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ باطل حق پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے ۔ علی اھل کوفہ کے بارے میں ان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ( اما والذی نفسی بیدہ لیظھرون ھئولاء القوم علیکم لیس لانھم اولی با الحق منکم ولیکن لاسراعھم الی باطل صاحبھم وابطائکم عن حقی )
جان لو : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں علی کی زندگی ہے یہ گروہ ( اھل شام ) تم پر غالب آجائے گا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تم سے زیادہ حق پسند اور حق کے ہپیرو ہیں نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے حاکم کے باطل مقصد اور اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے جو اس کا حقنہیں ہے جلدی کرتے ہیں اور تم لوگ اسکو حاصل کرنے میں جو میرا حق ہے سستی سے کام لیتے ہو۔
پس معلوم ہوا کہ کامیابی کا سبب صرف حق پر اعتقاد اور نیت کا نیک ہونا نہیں ہے بلکہ دشمن پر غلبہ کے لئے آپس اک اتحاد اور اپنے رھبر کی پیروی ضروری ہے اور جو گروہ بھی اس راہ پر زیادہ چلے گا وہی کامیاب اور غالب آئے گا ۔ ممکن ہے کہ انسان سونچے کہ اس طرح تو بس باطل ہی غالب رہے گا زمانے میں اور حق مغلوب رہے گا اور ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو جائے اسی لئے قرآن آگے بڑھ کر حق پرستان کی امید بڑھاتا ہے اور حق پر ثابت رہنے کی تشویق دلاتا ہے یہ کہہ کر کہ ( بل نقذف با لحق علی الباطل فیہ .. فاذاھو زاھق) یہ آیة حق کی قدرت اور باطل کی ناتوانی کو بیان کرتی ہے باطل ممکن ہے کہ ظاھری اور موقت طور پر حق پر غلبہ حاصل کر لے لیکن حق ایک مرتبہ نمودار ہوتا ہے اور باطل کو نابود کر دیتا ہے ( قذف ) یعنی پھینکنا دماغ یعنی ( مغز) اب اس آیة سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ حق ایک گولی کی طرح سے باطل کے دماغ کا نشانہ بناکر چھوڑا جائے تو وہ اسے ریزہ ریزہ کردے اور ہم ایک دفعہ دیکھیں کہ باطل جانے والا ہی تھا زاھق تھا ، فناہونے والا تھا ۔
بہت سے لوگوں نے اس آیت سے یہ معنی لیا ہے کہ حق اسکے باوجود ایک مدت تک باطل کے ذریعہ چھپا رہتا ہے لیکن جب باطل سے جنگ کے لئے آتا ہے تو اس طرح استحکام کے ساتھ آتا ہے کہ بنیادیں تک اکھاڑ دیتا ہے خدا خود بشر کے ذریعہ یہ کام انجام دیتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حق ایک طوفان کی طرح آتا ہے اور باطل کو چور طور کر کے خمیر کر کے دور پھینک دیتا ہے ۔
طوسل تاریخ میں ہمیشہ حق وباطل میں مقابلہ رہا ہے اور باطل وقتی طور پر حق پر غالب آجاتا ہے لیکن قرآن حق کی باطل پر کامیابی اور غلبہ کا وعدہ دیتا ہے اور کامیابی بھی کیسی کہ باطل کا نام ونشان تک مٹ جائے گا اور اسی کو تاریخ کی آخری سرنوشت بیان کر تا ہے اسی لئے توصیہ کرتا ہے ( ولا تھنو اولا تحزنو اوانتم الاعلون ان کنتم مومنین ) ایمان رکھو کہ برتری تمہارے لئے ہے اپنی اقلیت اور مقابل کی اکثریت سے خوف مت کھائو ان کے مال سے کہ جو انھوں نے باطل کے ذریعہ دنیا سے حاصل کیا ہے نہ گھبرائو انکے اسلحوں اور ان کی فراوان طاقتوں سے نہ ڈرو ۔فقط ایمان اور حقانیت کو حفظ کرو اور حق پسندی کو اپنے اندر بچا کر رکھو ان کے مقابل میں مومن واقعی بن جائو ، حقیقت انسانیت کو اپنے اندر پیدا کرو اگر تم ایسا بن گئے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں تو کامیابی تمہارے لئے ہے سربلندی تمہاری کنیز ہے فخرو عزت تمہاری امیر ہیں آخر میں پروردگور سے دعا گو ہوں کہ اے رب حقیقی ہمیں حق پسندی اور حق کی حمایت کا جذبہ عنایت فرما اور مصداق حق امیر المومنین کے حقیقی پیروان میں قرار دے۔
آمین یا رب الحق والیقین