Thursday, April 2, 2009

haq o batil amirul momenin ki nigah main

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حق وباطل نہج البلاغہ میں

قال رسول اللہ ۖعلی مع الحق والحق مع العلی ( ( بحار الانوار ،ج٣٨، ص٣٠)
انسان کی فطرت میں یہ بات پائی جاتی ہے کہ وہ حق کو دوست رکھتا ہے اور باطل کو پسند نہیں کرتا ۔ یہ وہ حقیقت ہے کہ جو انسان کی فطرت کا لازمہ ہے اسی لئے ہم جب تاریخ بشریت کا مطالعہ کرتے ہیں تو قدم قدم پر بہت سے باطل پرستوں پر نظر پڑتی ہے کہ جو اپنی باطل اغراض واھداف تک پہونچنے کے لئے پیروانا حق ہونے کا دعوہ کرتے ہیں تاکہ اس فطرت حق پسندی سے فائدہ اٹھا سکیں اور جب ایسے لوگ اپنے مقاصد تک پہنچ جاتے ہیں تو پھر حق پرستی کا لبادہ اتار دیتے ہیں اور اپنا اصلی اور مکروہ چہرہ سامنے لاتے ہیں تو انسان اس وقت اپنے آپ کو ٹھگا ہوا اور فریب خوردہ پاتا ہے۔
در حقیقت باطل کا ھدف اور اصلی مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ حق کو نیست ونابود کر دے مگر چونکہ فطرت انسانی حق پسند اور ضد باطل ہے اسلئے گوارہ نہیں کرتی کہ حق مغلوب اور باطل فتحیاب ہو جائے
اسی لئے اھل باطل جب اپنی ذاتی مقاصد کے حصول کے لئے کھڑے ہوتے ہیں تو وہ بھی یہدعوہ نہیں کرتے کہ ہمارا مقصد باطل ہے ہم باطل کے پیرو ہیں بلکہ دعوہ کرتے ہیں کہ ہم حق پسند ہیں اور چاہتے ہیں کہ حق کا پرچم بلند کلریں ۔ وہ خود کو راہ حق کا مسافر اور باطل کا مخالف بنا کر پیش کرتے ہیں قرآن ان کی فطرت کو اس طرح بیان فرماتا ہے
(اذا قیل لھم لا تفسدو فی الارض قالو انما نحن مصلحون ) جب ان سے یہ کہا جاتا ہے کہ زمین پر فساد برپا نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو اصلاح کر رہے ہیں امن پھیلا رہے ہیں ۔ در حقیقت ایدے لوگ چاہتے ہیںکہ حق وباطل کو اس طرح ملا دیا جائے کہ عام انسان جب پہلی نظر مسئلہ پر ڈالے تو وہ خود کو ایک ایسے دو راہے پر کھڑا ہوا پائے کہ جہاں سے ایک راہ حق کی طرف اور دوسری راہ باطل کی طرف جاتی ہے مگر اس کے لئے یہ تشخیص دیان مشکل ہو کہ کون سا راستہ حق کی طرف جاتا ہے اور کون سا باطل کی طرف اور جب انسان اپنے راستے پر آکر کنفیوز (se confu ) ہو جائے تو اھل باطل لباس حق پہن کر سامنے آجاتے ہیں اور فطرت انسانی کو اپنے اھداف باطلہ تک پہونچنے کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔
کبھی کبھی حقو باطل کے امتزاج اور آمیزش کی وجہ سے ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ بڑے بڑے مفکرین اور صاحبان نظر ان اشتابہ اور خطاء فکری کے شکار ہو کر تمام عمر باطل کو ثابت کرنے میں گزار دیتی ہیں ۔ جب بڑے بڑے مفکریں حق و باطل میں تشخیص نہیں دے پاتے ہیں تو کوئی ایسا پیمانہ ہو کہ جس کے اعتبار سے پہچانا جائے سکے کہ کیا حق ہے اور کیا باطل ہے اور وہ پیمانہ جز اس کے کوئی نہیں ہو سکتا ہے جس کے بارے میں رسول حق ۖ نے فرمایا ہو ( علی مع الحق والحق مع العلی ) علی حق کے ساتھ ہے اور حق علی کے سا تھ ہے ۔
ہمارا مقصد اس تحریر میں قرآن ونہج البلاغہ کی روشنی میں حق وباطل کی آمیزش سے پیدا ہونے والے بحران اور حق و باطل کی جنگ میں اکثر باطل کی پیروزی اور غلبہ کے اسباب ، اور حق کی فتح کے لئے کیا ضرورت ہے کے بارے میں بیان کرنا ہے ۔
حق وباطل کے بارے میں کچھ بیان کرنے سے پہلے ہمیں حقوباطل؛ کے بارے میں جاننا پڑے گا کہ حق کیا ہے اور باطل کیا ہے ؟
کلمہ( حق ) نہج البلاغہ میں دو معنی میں استعمال ہوا ہے حق عدل کے معنی میں استعمال ہو ا ظلم کے مقابلہ میں اور کلمہ حق جس کے لئے استعمال ہوا ہے وہ ( صحیح) کا ہے غلط یا باطل کے مقابلہ میں ۔
لیکن باطل کیا ہے؟اس کے لئے فصیح تعریف یہی ہے کہ باطل ایک خود کا کوئی وجود نہیں ہوتا بلکہ یہ تو حق کی مخالفت کا نام ہے اس کا مستقل کوئی وجود نہیں ہے بلکہ حق کے راستے سے ہٹ جانے کا نام باطل ہے ۔
اس کے لئے قرآن سے بہتر مثال کوئی نہیں دے سکتا ہے قرآن فرماتا ہے کہ اس نے (اللہ نے) آسمان سے پانی برسایا جو وادیوں میں بقدر ظرف بہنے لگا ( جب اس نے سیلاب کی شکل لی) اور سیلاب میں اس پانی پر جوش کھانے کی کی وجہ سے جھاگ آگیا ۔ اور اس دھات (فلذ) پر بھی جھاگ آگیا جیسے آگ پر زیور بنانے کے لئے پگھلاتے ہیں ۔ اسی طرح پروردگار حق و باطل کی مثال بیان فرماتا ہے کہ جھاگ خشک ہو کر فنا ہو جاتا ہے اور جو لوگوں کو فائدہ پہونچاتا ہے ( پانی ،دھات، وغیرہ) زمین پر باقی رہ جاتا ہے اور خدا اسی طرح مثال بیان فرماتا ہے ۔
قرآن نے یہاں پر حق و باطل کے مسئلہ کوایک آیة کے ذریعہ واضح کر دیا ہے کہ حق کو پانی اور دھات ( جیسے سونا ،چاندی وغیرہ)سے وباطل کو کو ان پر آجانے والے جھاگ سے تشبیہ دی اور روشن کر دیا کہ جھاگ کا اپنا کوئی وجود نہیں ہے بلکہ یہ تو پانی اور دھات ( یعنی حق ) کے اوپر کچھ وقت کے لئے آجاتا ہے جھاک ہمیشہ اوپر دکھائی دیتاہے لیکن جیسے ہی جوش تھنڈا ہو جاتا ہے تو یہ جھاگ فنا ہوجاتا ہے اور جو حق ہوتا ہے وہ باقی رہ جاتا ہے ۔
یہاں پر خدا نے حق کے ثابت رہنے اور باطل کے ختم ہو جانے کی طرف بھی ان الفاظ میں اشارہ کیا ہے۔جو لوگوں کو فائدہ پہونچاتا ہے باقی رہ جاتا ہے ، یعنی حق اس لئے باقی رہ جاتا ہے کیونکہ یہ دوسروں کے لئے مفید ہوتا ہے اور باطل اس لئے فنا ہو جا تا ہے کیونکہ اس میں کسی لئے کوئی فائدہ نہیں ہوتا ہے غیر مفید ہوتا ہے ۔
باطل کا مزاج جولانیت والا ہوتا ہے یعنی بہت زور وشور کے ساتھ آتا ہے اور حق کو چھپا لیتا ہے لیکن چونکہ یہ بے بنیاد ہوتا ہے اور ریشہ دار نہیں ہوتا ہے اس لئے جیسے ہی یہ جولانیت یہ جوش ختم ہوجاتا ہے یہ فنا ہو جاتا ہے اور حق دوبارہ اوپر آ جاتا ہے چونکہ باطل کی کوئی اصل نہیں ہوتی بنیاد نہیں ہوتی اسی الئے اس کے لئے بقاء اور دوام نہیں ہوتا جبکہ حق ریشہ دار ہوتا ہے اس لئے اس میں دوام ہوتا ہے اور باقی رہتا ہے خداوند عالم قرآن میں فرماتا ہے ( قل جاء الحق زھق الباطل ان لاباطل کان زھوقا )اے حبیب کہدو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیااور باطل تو تھا ہی نابود ہونے کے لئے ۔
حق کے جو دو معنی نہج البلاغہ میں ذکر ہوئے ہیں ان کا جائزہ لیتے ہیں تو دیکھتے ہی کہ علی نے اپنی حکومت کی بنیاد ہی حق وباطل پر رکھی تھی اورتمام امور میں حق وباطل کو اجراء کیا چاہے وہ بیت المال کی تقسیم ہو یا امور اجتماعی کی اصلاح ۔چاہے عھدہ وامارت عطاء کرنا ہو یا کسی کو عھدہ سے معذول کرنا ہو ،علی علیہ لاسلام نے نظام عدل کو اس دور میں اجراء کیا جب رسول اکرم ۖکی حیات طیبہ کو ٢٥ سال گزر چکے تھے اور ظلم و بے نظمی معاشرہ کو اپنے دامن میں پھنسا چکی تھی ، بدعات رائج تھیں اور دور جہالت کے آثار جہان اسلام میں نمودار ہونے لگے تھے ۔
یہ علی علیہ السلام کی حق پسندی تھی جسے بہت سے منحرف افراد برداشت نہیں کر سکتے تھے ، کیونکہ اجراء عدالت سے ان کے ذاتی مفاد متاثر ہورہے تھے اور نتیجہ کے طور پر ہم دیکھتے ہیںکہ علی علیہ السلام کو اپنے ساڑھے چار سالہ دور حکومت میں کتنی مشکلوں اور مسائل کا سامنا کرنا پڑا ۔
علی علیہ لاسلام کے دور حکومت کا مطالعہ کرتے ہیں تو سول اٹھتا ہے کہ جنگ جمل کیوں واقع ہوئی ؟حضرت علی نے نہج البلاغی میں متعدد مقامات پر روشنی ڈالی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ جنگ جمل کے عوامل میں سے ایک یہ تھا کہ طلحہ وزبیر جو کسی تعریف کے محتاج نہیں ہیں رسول اکرم ۖ کے دومعروف صحابی اور دنیائے اسلام کی مشہور شخصیتیں تھیں ۔ امیر المومنین کی حکومت کے ابتدائی ایام میں مولا کے پاس آتے ہیں اور چاپلوسانہ لہجہ میں کہتے ہیں : کہ آپ ہم سے حکومت کے امور میں مشورت کیوں نہیں کرتے ؟
وہ دونوں در حقیقت مشاور حکومت بن کر قدرت کا لطف اور لذت اتھانا چاہتے تھے امیر المومنین نباض فطرت تھے ان کا منشا سمجھ گئے اور فرمایا (لقد نقمتھا یسیرا وارجئاتما کثیرا الا تخبرانی ای شیء کان لکما فیہ ح١ق دفعتکما عنہ ام ای شیء قسم استاثرت علیکما بہ ، ای حق دفعہ الی احد من المسلمین ضعفت عنہپ ام جھلتہ ام اخطات بابہ واللہ ما کان لی فی الخلافہ رغبة ولا فی الولایة اربة ولکنکم دعوتمونی الیھا وحملتمونی علیھا )تم لوگ تھوڑے سے کے نا ملنے پر ناراضی تھے لیکن جو زیادہ تمھیں ملا اسے پس پشت ڈال دیا ۔ مجھے بتائو کہ تم کسی چیز میں حق رکھتے تھے اور میں نے تم اس حق کے حاصل کرنے سے روکا ہو ، یا کون سا ایسا فائدہ تھا جو خود حاصل کیا ہو اور تمہیں نہ دیا ہو ، یا کون سا یسا حق یا مسئلہ تھا جو مسلمین میرے پاس لائے ہوں اور میں اس کے بیان سے عاجز ہو گیا ہوں اور نہ بتا سکا ہوں یا مجھے اس کا علم نہ ہو یا بتانے میں خطا یا اشتباہ سرزد ہوئی ہو خدا کی قسم علی کو تمہارے اوپر حکومت کرنے کی کوئی تمنا نہیں تھی تم لوگوں نے مجھے اس کی دعوت دی اور مجبور کیا کہ علی اس حکمیت کو قبول کرے ۔
طلحہ حسین ۔ مصری مصنف اپنی کتاب ( علی ونبوة ) میں لکھتا ہے کہ میں نے خدا اور رسول کے کلام کے بعد اتنا موثر اور منطقی کلام نہیں دیکھا جو کہ طلحہ اور زبیر جیسے افراد کے مقابلہ میں امام علی علیہ السلام نے بیا ن فرمایا ۔
اور پھر زمانے نے دیکھا کہ یہ لوگ جو کل امور مملکت میں علی سے درخواست کر رہے تھے کہ ان کی خدمات اور مشاورت لی جائے صرف طالب قدرت تھے اور طلب قدرت کے لئے ایک لشکر کے ساتھ میدان میں آگئے اور علی کو ناچاہتے ہوئے بھی جنگ جمل کا سامنا کرنا پڑا ۔
علی نے محکم طریقہ سے اور بصیرت الھی کے ساتھ اس جنگ کا سامنا کیا اور فتنہ جمل کو خاموش کیا ۔ یہ جنگ تو تمام ہو گئے لیکن اس کے نتائج حکومت عادلانہ امیر المومنین کے لئے مسئلہ ساز تھے بہت سے مسئلہ ایسے تھے جن سے علی کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو فتح کے باوجود جنگ روانی ہار جاتا جنگ کیسی جنگ تھی طلحہ وزبیر جیسی ہستیاں قتل ہوگئیں اور ام المومنین کو بری طرح کی شکست کا سامنا کرنا پڑا ۔ یہاں پر لوگ اشتباہ میںپڑ گئے کہ کون حق پر ہے اور کون باطل پر ہے ۔ ایک طرف ام المومنین تھی اور ایک طرف امیر المومنین تھے ایک طرف طلحہ وزبیر جیسے صحابہ تھے اور دوسری طرف ابوذر وعمار جیسے جلیل القدر صحابہ ۔
یہاں تک کہ لشکر امیر المومنین میں بھی لو گ تردد میں پڑ گئے کہ حارث ابن لوط کہ جو جنگ جمل میں امیر المومنین کی طرف سے شریک تھا جنگ کے بعد امیر المومنین سے کہتا ہے کہ ( اترانی اظن اصحاب الجمل کانو علی الضلالة ) جواب میں فرماتے ہیں اے حارث تم بجائے اس کے کہ اپنے سر کے اوپر نگاہ ارتے اپنے قدموں کے نیچے نگاہ کرتے ہو ، بجائے اس کے کہ اپنی بصیرت کے ذریعہ اپنے ا مام کی پیروی کرتے جزئیات اور چھوٹی چیزوں کو یعنی ظاہر کو دیکھنے میں مشغول ہو گئے ہو اسی لئے آج حیران کھڑے ہو اور تعجب کر رہے ہو (انک لم تعرف الحق فتعرف من اتاہ و لم تعرف الباطل ، فتعرف من اتاہ ) تم حق کو نہیں پہچانتے ہو اسیلئے اصل حق کو نہیں پہچان سکے اور باطل کی شناخت نہیں رکھتے ہو اس لئے اصل با طل کو نہیں پہچان سکے ہو پھر کیسے ممکن ہے کہ تم اھل جمل کے باطل پر نہ ہونے کے بارے میں کوئی بات کہو جب کہ نہ تم حق کو پہچانتے ہو اور نہ ہی باطل کو ۔
یہ بیان حق کے اس مفہوم کے لئے تھا جو ( عدل )کے معنی رکھتا تھا اور جنگ صفین تک جو مسائل پیش آئے وہ اس حق کی مخالفت میں رونما ہوئے جو حق بہ معنای (عدل ) تھا لیکن جنگ صفین اور جنگ صفین کے بعد پر جب نظر کرتے ہیں تو وہاں پر چاہے حکمین کا مسئلہ ہو یا خوارج کی گمراہی ، حق باطل کے مقابلے میں صحیح کے معنی میں جو غلط کے مقابل میں ہے نظر آتا ہے جنگ صفین کے بعد حق ایک عقیدتی اور (idiological) مسئلہ بن کر سامنے آیا ( کلمة الحق یراد بہ بھا الباطل )علی علیہ السلام نے فرامایا کہ کلمہ تو حق ہے لیکن اس سے جو مطلب حاصل کیا جا رہا ہے وہ باطل ہے ، خوارج نے حکمین کے بعد جب نعرہ دیا کہ ( لا حکم الا للہ لو کرہ المشرکون )علی علیہ السلام نے خوارج کے ساتھ جو روش اختیار کی وہ بہت نرم اور با ملایمیت تھی ، علی مانتے تھے کہ جب تک یہ لوگ اور یہ فتنہ ایک عقیدتی مسئلہ اور سیاسی ایجنڈا بن کر مطرح ہے اور یہ لوگ قتل وغارت گری یا حکومت اسلامی کے ساتھ جنگ نہیں کرتے تب تک ان سے جنگ نہیں کی جائے گی ۔ یہاں تک کہ یہ لوگ نماز جماعت کے وقت مسجد میں داخل ہوتے اور علی کوخطاب کر کے اس آیة کی تلاوت کرتے جو مشرکین کے اعمال کے حبط اور نابود ہونے کی خبر دیتی ہے اور وہ یہ ہے (لئن اشرکت لیحبطن عملک ولتکونن من الخاسرین) اگر تم نے شرک کیا تو تمہارے اعمال حبط ہو جائیں گے برباد ہو جائیں گے اور تم نقصان اٹھانے والوں میں سے ہو جائو گے ۔
علی علیہ لاسلام نے عجیب صبر کا مظاھرہ کیا اور انکی اصلاح کے لئے کوشش کرتے رہے لیکن خوارج اپنی بات پر اڑے رہے اور اپنے اس باطل نعرہ کی تکرار کرتے رہے ، صفین میں حکمیت قبول کر کے معاویہ اور علی دونوں مشرک ہو گئے ہیں اس لئے چاہیے کہ دوبارہ اسی میدان میں جہاں جنگ صفین واقع ہوئی تھی واپس چلیں اور پھر تین دن تک استغفار کریں اور دوبارہ سے جنگ شروع کریں ۔
علی نے انکے جواب میں فرمایا کہ : جب میں جب میں اس دن جنگ صفین میں کہ جب فتح ہم سے صرف چند قدم دور تھی اور میں تمہیں جنگ جاری رکھنے کے لئے تشویق کر رہا تھا کہ جنگ کو جاری رکھو حکمیت صرف ایک فریب ہے اور بس ۔ لیکن اس دن تم نے مجھے حکمیت قبول کرنے پر مجبور کر دیا اور جنگ کو جاری رکھنے سے منع کردیا مین نے مجبور ہوکر اپنے دشمن سے پیمان باندھ لیا اور حکمیت کو قبول کر لیا اور ابتم چاہتے ہو کہ علی اپنے پیمان کو توڑ دے پیمبر خدا ۖ اگر مشرکین سے پیمان باندھتے تو اسے بھی نہیں توڑتے تھے اب چونکہ علی پیمان باندھ چکا ہے اس لئے اسے نہٰ توڑ سکتا ۔
امیر المومنین خود خوارج کو اس دل کو لبھانے والے نعرہ ( لا حکم الا للہ ) کے بارے میں اس طرح فرماتے ہیں ( کلمة الحق یراد بھا الباطل، نعم لا حکم الا للہ ولیکن ھئولاء یقولون لا امرة الا للہ وانہ لابد للناس من امیر بر او فاجر )
یہ نعرہ جو خوارج نے بلند کیا ہے کہ کلمہ حق ہے لا حکم الا للہ علی بھی مانتا ہے کہ بیشک اللہ کے علاوہ کوئی اور حکم کے لائق نہیں ہے لیکن یہ جمعیت ( خوارج )کہتی ہے کہ کو ئی حاکم اور امیر نہیں ہے اللہ کے علاوہ اور اسکے ذریعہ جہان اسلام میں فساد پھیلانا چاہتے ہیں ، اس لئے کہ لوگوں کو اپنے امور کے ادارہ اور سماج ومعاشرہ میں نظم وضبط کو باقی رکھنے کے لئے ایک حاکم اور امیر کی ضرورت ہے چاہے وہ حاکم اور امیر صالح ،نیک و ایماندار ہو چاہے بدکار اور فاسق وفاجر ۔(٨)یہاں ہم دیکھتے ہیں کہ کلمہ حق صحیح کے معنی میں استعمال ہوا ہے اور باطل غلط کے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب لوگوں کی فطرت کا تقاضہ حق پسندی اور باطل کی مخالفت ہے ، تو پھر باطل کیوں حق پر غالب آجاتا ہے جب بشر کی درونی خواہش ہوتی ہے کہ بساط ظلم سمٹ جائے مسند حق بچھا دی جائے تو پھر کیوں باطل حکومت کو حاصل کر لیتا ہے اور ایسا کیوں لگتا ہے کہ جامعہ اور سماج بھی باطل کو ہی پسند کرتا ہے ۔
جب ہم تاریخ حق وباطل کا مطالعہ کرتے ہیں تو باطل کی کامیابی اور حق کی ناکامی کے دو مہم عوامل سامنے آتے ہیں پہلا عامل اور سبب باطل کا حق کی شکل میں ظاہر ہونا ہے جیسا کہ پہلے بھی اس کی طرف اشارہ کر چکے ہیں چونکہ باطل حق کی شکل میں سامنے آتا ہے اس لئے لوگ اس کا ساتھ دیتے ہیں اگر یہ نقاب حق اتار دی جائے تو ان کے لئے معاشرہ میں کوئی جگہ باقی نہیں رہ جاتی ہے ۔
امیر المومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ ( فلو ان الباطل خلص من مزاج الحق لم یخف علی المرتادین ، ولو ان الحق خلص من لبس الباطل انقطعت عنہ السن المعاندین ) اگر باطل حق کی ملاوٹ اور امتزاج سے پاک ہو جائے تو حق پسندوں پر حق چھپا نہیں رہ سکے گا اور پہچان لیا جائے گا اور اگر حق باطل کی آمیزشاور ملاوٹ سے بچا رہے تو تو دشمنوں کو بہانا نہیں ملے گا اور ان کی زبانیں قطع ہو جائیں گی کہ کہہ سکیں گے چونکہ حق باطل کے ساتھ ملا ہوا تھا اس لئے ہم پہچان نہیں پائے اور دھوکا کھا گئے ۔
اھل باطل کی کامیابی کا دوسرا سبب ان کا آپس ،میں اتحاد اورانسجام اور حق پسندوں کا باھمی اختلاف ہے اھل باطل اپنے باطل ھدف کو حاصلکرنے کے لئے تو متحد ہو کر کوشش کرتے ہیں اور ااپنے رھبر کے مطیع اور فرمانبردار ہوتے ہیں جب کہ اھل حق متحد نہیں ہوتے ہیں اور نتیجہ یہ ہوتا ہیکہ باطل حق پر غلبہ حاصل کر لیتا ہے ۔ علی اھل کوفہ کے بارے میں ان سے خطاب کرتے ہوئے فرماتے ہیںکہ ( اما والذی نفسی بیدہ لیظھرون ھئولاء القوم علیکم لیس لانھم اولی با الحق منکم ولیکن لاسراعھم الی باطل صاحبھم وابطائکم عن حقی )
جان لو : اس کی قسم جس کے ہاتھ میں علی کی زندگی ہے یہ گروہ ( اھل شام ) تم پر غالب آجائے گا اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ تم سے زیادہ حق پسند اور حق کے ہپیرو ہیں نہیں بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ لوگ اپنے حاکم کے باطل مقصد اور اس چیز کو حاصل کرنے کے لئے جو اس کا حقنہیں ہے جلدی کرتے ہیں اور تم لوگ اسکو حاصل کرنے میں جو میرا حق ہے سستی سے کام لیتے ہو۔
پس معلوم ہوا کہ کامیابی کا سبب صرف حق پر اعتقاد اور نیت کا نیک ہونا نہیں ہے بلکہ دشمن پر غلبہ کے لئے آپس اک اتحاد اور اپنے رھبر کی پیروی ضروری ہے اور جو گروہ بھی اس راہ پر زیادہ چلے گا وہی کامیاب اور غالب آئے گا ۔ ممکن ہے کہ انسان سونچے کہ اس طرح تو بس باطل ہی غالب رہے گا زمانے میں اور حق مغلوب رہے گا اور ناامیدی اور مایوسی کا شکار ہو جائے اسی لئے قرآن آگے بڑھ کر حق پرستان کی امید بڑھاتا ہے اور حق پر ثابت رہنے کی تشویق دلاتا ہے یہ کہہ کر کہ ( بل نقذف با لحق علی الباطل فیہ .. فاذاھو زاھق) یہ آیة حق کی قدرت اور باطل کی ناتوانی کو بیان کرتی ہے باطل ممکن ہے کہ ظاھری اور موقت طور پر حق پر غلبہ حاصل کر لے لیکن حق ایک مرتبہ نمودار ہوتا ہے اور باطل کو نابود کر دیتا ہے ( قذف ) یعنی پھینکنا دماغ یعنی ( مغز) اب اس آیة سے یہ مطلب نکلتا ہے کہ حق ایک گولی کی طرح سے باطل کے دماغ کا نشانہ بناکر چھوڑا جائے تو وہ اسے ریزہ ریزہ کردے اور ہم ایک دفعہ دیکھیں کہ باطل جانے والا ہی تھا زاھق تھا ، فناہونے والا تھا ۔
بہت سے لوگوں نے اس آیت سے یہ معنی لیا ہے کہ حق اسکے باوجود ایک مدت تک باطل کے ذریعہ چھپا رہتا ہے لیکن جب باطل سے جنگ کے لئے آتا ہے تو اس طرح استحکام کے ساتھ آتا ہے کہ بنیادیں تک اکھاڑ دیتا ہے خدا خود بشر کے ذریعہ یہ کام انجام دیتا ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ حق ایک طوفان کی طرح آتا ہے اور باطل کو چور طور کر کے خمیر کر کے دور پھینک دیتا ہے ۔
طوسل تاریخ میں ہمیشہ حق وباطل میں مقابلہ رہا ہے اور باطل وقتی طور پر حق پر غالب آجاتا ہے لیکن قرآن حق کی باطل پر کامیابی اور غلبہ کا وعدہ دیتا ہے اور کامیابی بھی کیسی کہ باطل کا نام ونشان تک مٹ جائے گا اور اسی کو تاریخ کی آخری سرنوشت بیان کر تا ہے اسی لئے توصیہ کرتا ہے ( ولا تھنو اولا تحزنو اوانتم الاعلون ان کنتم مومنین ) ایمان رکھو کہ برتری تمہارے لئے ہے اپنی اقلیت اور مقابل کی اکثریت سے خوف مت کھائو ان کے مال سے کہ جو انھوں نے باطل کے ذریعہ دنیا سے حاصل کیا ہے نہ گھبرائو انکے اسلحوں اور ان کی فراوان طاقتوں سے نہ ڈرو ۔فقط ایمان اور حقانیت کو حفظ کرو اور حق پسندی کو اپنے اندر بچا کر رکھو ان کے مقابل میں مومن واقعی بن جائو ، حقیقت انسانیت کو اپنے اندر پیدا کرو اگر تم ایسا بن گئے جیسا کہ ہم چاہتے ہیں تو کامیابی تمہارے لئے ہے سربلندی تمہاری کنیز ہے فخرو عزت تمہاری امیر ہیں آخر میں پروردگور سے دعا گو ہوں کہ اے رب حقیقی ہمیں حق پسندی اور حق کی حمایت کا جذبہ عنایت فرما اور مصداق حق امیر المومنین کے حقیقی پیروان میں قرار دے۔
آمین یا رب الحق والیقین

1 comment:

  1. MAULA apko apni ghulami ky sharaf sy nawazay rahain ameen...

    ReplyDelete