Sunday, April 5, 2009

arwi bint haris bin abdul muttalib , rahe Ali ki mujaheda

بسم اللہ الرحمًٰن الرًحیم
اروی دختر حارث بن عبدالمطًلب

امیرالمومنین کی شھادت کے بعد مولا کے پر برکت مکتب میں تربیت پانے والے کچھ شیعیان کی ملاقات معاویہ سے ہوتی ہے یا معاویہ کے حکم پر انہیں معاویہ کیے در بار میں حاضر کیا جاتا ہے . غالباً معاویہ انکی جرئات گفتار . بے باکانہ لھجہ .حق گو زبان اور علی کی محبت پر انکی پا فشاری پر تعجبب کرتا تھا .اور اسکے باوجود کہ ان لوگوں کا کینہ دل میں رکھتا تھا لیکن اسکے باوجود ان لوگوں کے ساتھ سکوت اور بردباری میں اپنا فایدہ دیکھتا تھا ۔معاویہ کی سخت مخالفت کرنے والوں میں کچھ با فضیلت خواتین بھی تھیں کہ جنہوںنے اپنے عقیدہ سے دفاع اور مولا کے دشمنوں کو رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور اپنا نام تاریخ شیعت کے اوراق پر سنہرہ الفاظ میںثبت کرا یا اس طرح کہ قیامت تک راہ ولایت پر آگے بڑھنے والی خواتین کے ساتھ ساتھ مردوں کے لئے بھی اسوئہ عمل بن گئی۔انشااللہ اس تحریر میں ہمارا مقصد ایسی ہی ایک با عظممت خواتین کے کردار کی ایک جھلک پیش کرنا ہے کہ کس طرح اس علی کی چاہنے والی با عظمت خاتون نے معاویہ جیسے ظالم و جابر حکمراں کے سامنے حق گوئی کا مظاہرہ کیا اورامیرالمومنین کے بارے میں اپنے عقیدہ کا اعلان کیا۔ اور وہ خاتون ہے ''' اروی دختر حارث بن عبدالمطًلب'''۔ یہ رسول اللہ ۖ اور امیر المومنین کے چچا کی بیٹی تھیں اور ایک ایسی آزاد روح خاتون تھی کہ جسکے عقیدوں کو ظلم و ستم کی کوئی زنجیر قید نہیں کر سکتی تھی مولا کی شھادت کے بعد معاویہ کو یہ گمان تھا کہ شاید آج یہ پاک دامن خاتون بڈھاپے اور ناتوانی کے سبب اسکے سامنے معذرت خواہی کے لئے آجائیگی مگر اسکو یہ گمان بھی نہ تھا کہ جسکے ذھن و دل پر علی کی محبت حکم فرماں ہو وہ کسی ظالم و جابر کے سامنے سر نہیں جھکاتے ۔جو زبانیں علی کی مدح کی چاشنی چکھ لیتی ہیں وہ کٹ تو جاتی ہیں لیکن کسی اور کی تعریف نہیں کرتیں .'' اروی معاویہ کے سامنے پیش ہوتی ہے اور پیش ہے اروی اور معاویہ کے بیچ گفتگو۔۔۔
معاویہ۔۔۔۔ خوش آمدید ؛اھلاً و مرحبا؛ ہمارے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟
اروی...اے برادر زادہ ! تونے نعمت الٰھی کا کفران کیا اور اپنے چچازاد علی کے ساتھ برا برتائو کیا اور َََََََِِِِاپنے لئے''خلیفہ'' کے نام اور خطاب کو انتخاب کیا جبکہ تو اسکے لائق نہیں تھا ؛خلافت تیرا حق نہیں تھا لیکن تونے حق خلافت کو غصب کیا جبکہ تو اور تیرا باپ دونو ں ہی نے اسلام کے معاملہ میں کوئی خدمت انجام نہیں دی اور نہ ہی تم دونوں کا دین اسلام میں کوییئی سابقہ تھا 'رسول خدا پر تب تک ایمان نہ لائے جب تک کہ خدا نے تم لوگوں کو ذلیل نہ کر دیا۔ تم لوگ مجبوری کے عالم میں مسلمان ہوئے اور کراھت اور مجبوری کی حالت میں تم لوگوں نے رسول کی حقانیت کی گواہی دی جبکہ دل سے تم لوگ ان کے منکر تھے تم لوگوں نے ابتدائے اسلام سے انکی مخالفت کی اور اسلام کی طاقت سے مجبور ہوکر اسلام قبول کیا اور اور آخر کار یہ جانتے ہوئے بھی کہ دین اور ایمان میں اھل بیت کا ہصہ سب سے زیادہ ہے. رسول خدا ۖ کی رحلت کے بعد اھل بیت کے حق کا انکار کیا۔
بہت عجیب ہے کہ تم لوگ پیامبر سے نزدیکی اور قرابت کو اپنے لئے شرف اور فضیلت شمار کرتے ہوںاور اس قربت اور نزدیکی کو اپنی حقانیت کی دلیل سمجھتے ہوں جبکہ تم جانتے ہوں کہ علی تم لوگوں کے مقابلہ رسول ۖ سے زیادہ نزدیک اور خلافت کے منصب کے زیادہ حقدار ہیں ، اسکے باوجود تم نے ان سے جنگ کی .
آہ ! افسوس کہ تم لوگوں نے پیامبر کی آل کے ساتھ وہی برتائو کیا جو فرعون کے ماننے والوں نے موسٰی کے ماننے والوںکے ساتھ کیا تھا، اس طرح کہ انکے مردوں کو قتل کر دیا اور انکی خواتین کو زندہ چھوڑ دیارسول ۖ کے چچا زاد بھائی علی کی منزلت رسول کے نزدیک ہوہی تھی جو ھارون کی منزلت موسٰی کے نزدیک تھی لیکن جس طرح ھارون کو موسٰی کی قوم نے موسیٰ کی غیر موجودگی میں ذلیل کیا اور اس پر ظلم و ستم کیا اسی طرح علی کوآزار و اذیًت کرنے میں قریش نے کوئی کمی نہ چھوڑی یہہاں تک کہ انہونے اپنی مظلومی کا نوحہ اس طرح پڑھا کہ ''یابن عم ان القوم اسستضعفونی و کادوا یقتلوننی '''. اے میرے بھائی تمہاری قوم نے مجھے ضعیف کر دیا ( یعنی میری منزلت کو نہیں سمجھا) اور قریب تھا کہ یہ قوم مجھے قتل کر دیتی۔
ہاں! پیامبر ۖ کے بعد تم لوگوں نے انکے اھل بیت کو ستانے میں کوئی کوتاھی نہیں کی لیکن خدا کا شکر کہ وہ لوگ جنًتی اور تم لوگ جہنًمی ہو گئے۔
اس موقعہ پر جب معاویہ کے اصحاب دیکھتے ہیں کہ'' اروی' انکے چہرہ پر پڑی اسلام کی نقاب کو الٹ رہی ہے اور ان لوگوں کے ظلم کو ظاہر کر رہی ہے تو اپنی زبان پر اختیار کھو دیتے ہیں عمر عاص جو معاویہ کا وزیر تھا اور اپنی خباثت میں مشہور تھا اس موقع پر 'اروی' سے خطاب کرتا ہے اور کہتا ہے :: ان بیکار کی باتوں کو بند کر اے گمراہ بوڑھی عورت۔
اروی کہتی ہے:تو کون ہوتا ہے بیچ میں بولنے والا؟ اور تجھ سے کیا مطلب ہے؟
حاضرین کہتے ہیں کہ :یہ عمر و عاص ہے معاویہ کا وزیر ۔
اروی ۔۔ اب تو بھی اس لائق ہو گیا کہ زبان چلائے اے عمرو عاص؟تیرے لئے بہتر ہے کہ تو صرف اپنے کام سے کام رکھ۔ تجھے قریش کی باتوں سے کیا مطلب؟
ہاں ! تجھے قریش سے کیا کام ؟تیرے حسب و نسب کو سب جانتے ہیں ۔ تیرے ماں مکًہ کی مشہور گانا گانے والی تھی اسکی حرام کام سے ہونے والی آمدنی اسکے سب ہم پیشہ افراد سے زیادہ تھی ِ، ہاں ! وہ تو ہی تو ہے کہ جب دنیا میں آیا تو چھ ٦ لوگوں نے تیرا باپ ہونے کا دعوہ کیا تھا۔
عمرو عاص یہ سب حقیقتیں سن کر خاموش ہوجانے میں ہی اپنی مصلحت دیکھتا ہے لیکن اسی بیچ مروان بن حکم بول اٹھتا ہے :'' اے گمراہ بوڑھی عورت! تیری انکھوں کا نور بھی تیری عقل کی طرح زایل ہوگیا ہے اور اسی بنیاد پر تیری گواہی اور تیری باتیں قابل قبول نہیں ہے۔
اب جب 'ارو ی 'کی عقل کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں کے نور پر بھی سوال اٹھا تو اروی نے مروان کواسیا جواب دیا کہ جو اسکے سلامتئی عقل اور حافظہ کے ساتھ ساتھ اسکی آنکھوں کے نور کی سلامتی پر بھی گواہ تھا اور پورا دربار سنکر خاموش ہوگیاکسی نے یہ نہیں کہا کہ اے' اروی تو جو مروان کی ظاہری شکل بیان کر رہی ہے مروان کی چکل ایسی نہیں ہے
'اروی' کہتی ہے: اے کم ظرف بچہ! اب تو بھی زبان چلانے لگا قسم خدا کی تو '' حکم ''سے زیادہ حارث بن کلدہ کے غلام سے زیادہ شباھت رکھتا ہے ۔ہاں، ان نیلی آنکھوں ۔ گھنگھرالے بالوں اور اپنے چھوٹے قد ہونے کی وجہ سے تو کوئی بھی شباھت ''حکم'' جیسے بلند قامت اور گینہوئے رنگ والے مرد کے ساتھ نہیں رکھتا۔
تیری 'حکم 'کے ساتھ نسبت ایسی ہی ہے جیسے ایک چھوتے قد کے پست نسل گھوڑے کی نسبت ایک با نسل عربی گھوڑے سے دی جائے۔ (اگر تجھے شک ہے میری باتوں پرتو) بہتر ہے کہ تو اس بات کو اپنی ماں سے پوچھ لے اگر وہ سچ بولیگی تو تجھے تیری حقیقت سے آشنا کرا دیگی۔
اسکے بعد اروی نے معاویہ ی طرف رخ کیا اور کہا :قسم خدا کی تو ہی ہے جس نے ان پست لوگوں کو ہم بنی ہاشم کی گردن پر مسلًط کر دیا ، تو ہی اس ماں کا بیٹا ہے کہ جس نے جنگ احد میں جناب حمزہ کہ خدا ان پر رحمت کرے ، کے قتل کے بعد بے باک ہو کر یہ شعر پڑھے تھے::
نحن جزیناکم بیوم بدر ۔۔ والحرب یوما لحرب ذات سعر
ما کان عن عتبہ لی من صبر ۔۔ ابی و عمی و اخی و صھری
ْ شفیت و حشی غلیل صدری ۔۔ شفیت صدری و قضیت نذری
فشکر وحشی علٰی عمری ۔۔ حتی تغیب اعظمی فی قبری
ترجمہ:۔
ہم نے جنگ بدر کا انتقام تم سے لے لیا ، آج جبکہ آتش جنگ پوری طرح رو شن ہے ہم آج اپنے باپ ، بھائی، چچا ، اور داماد کے اابتقام لینے کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیںِاور یہ وحشی ہے کہ جسنے ہمارا انتقام مسلمانوں سئے لے لیا اسنے حمزہ کو قتل کر دیا اور ہمارے دلوں میں سلگتی ہوئی آگ کو ٹھنڈا کیا ، میں جب تک زندہ ہوں اس وحشی کا شکریہ ادا کرتی رہونگی بلکہ میری ہڈیاں تک قبر میں بھی اس وحشی کا ژکر ادا کرینگی ۔
اب اروی' کہتی ہے :۔
ہاں ! اے مسند خلافت پر بیٹھنے والے ، تو آج خلافت کا دعوہ کرتا ہے تو اسی ماں کا بیٹا ہے کہ جس نے رسول ۖ کے چچا حمزہ کی شھادت کے بعد اس طرح اپنی خوشی کا اور سرور کا مظاھرہ کیا اور اسکے قاتل کی شکر گزار رہی ۔
اور جان لے کہ وہ میں ہی تھی کہ جس نے تیری ماں کے اشعار کے جواب میں یہ ایمان سے بھرپور اشعار کہے تھے:۔
یابنت رقاع عظیم الکفر ۔۔۔ خزینت فی بد ر و غیر بدر
صبحک اللہ قبیل الفجر ۔۔۔ بالھا شمین الطوال الزھر
لکل قتاع حسام یفری ۔۔۔ حمزہ لیثی وعلی صقری
اذ ا رام شیب و ابوک غدری ۔۔۔ اعطیت وحشی ضمیر الصدر
ھتک وحشی ھجاب الستر ۔۔۔ ما للبغایا بعدھا من فخر
ترجمہ::۔
اے احمق اور کافروں کے سردار کی بیٹی تمھاری رسوائی اور ضلالت کا ڈنکا ''بدر'' میں بھی بجا اور غیر بدر میں بھی تم بدنام زمانہ ہوں خدا انشاللہ صبح کے طلوع ہونے سے پہلے تم لوگوں کو بنی حاشم کے بلند قامت اور شجاع مردوں کے ذریعہغم میں مبتلا کریگا جو تیز اور سر اڑانے والی تلواروں کے ذریعہ تمہاری فوج کا مقابلہ کرینگے ۔
جان لو کہ حمزہ ہمارے لشکر کا شیر تھا اور علی ہمارے لشکر کا شکاری باز ہے ۔
آہ افسوس کہ تم لوگوں نے دھوکے اور فریب کے ذریعہ اور اس بدکار وحشی کے زریعہ حمزہ کو قتل کر دیا اور حیا اور غیرت کے پردہ کو چاک کر دیا ۔ تم گمان کرتے ہوں کہ یہ دھوکے بازی اور فریب کاری ھجو کرنے والی عورتوں کے لئے فخر و مباھات کا سبب بنیگی۔
یہ سب حقیقت سننے کے بعد سب کے ثہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں معاویہ مروان ور عمر و عاص سے کہتا ہے کہ :۔وائے ہو تم پر! تم لوگوں کی وجہ سے مجھے ناروا اور وہ باتیں سننی پڑی کہ جنکا سننا مجھے پسند نہیں ۔ اسکے بعد 'اروی' کی طرف رخ کرتا ہے اور کہتا ہے :۔ اے پھوپھی ان زنانہ قصًہ کو چھوڑیں اور اپنی حاجت بیان کریں ۔
اروی کہتی ہے:۔ حکم دے کہ مجھے دو ہزار دینار اور دو ہزار دینار اور دو ہزار دینار عطا کئے جائیں ۔
معاویہ:۔ بہت بہتر ۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ پہلے دو ہزار دینار کا کیا کرونگی؟
اروی :۔ پہلے دو ہزار دینار سے کچھ قابل کشت زمین اور ایک پانی اک چشمہ خریدنا چاہتی ہوں تاکہ حارث بن عبد المطلب کے بچًے اس میں کھیتی کریں اور تمام عمر انکے لئے ذریعہ معاش فراہم رہے۔
معاویہ:۔ بہت بہتر ! دوسرے دو ہزار دینار کا کیا کرونگی؟
اروی:۔ دوسرے دو ہزار دینار کو عبدالمطلب کے بچوں کی شادیوں پر خرچ کرنا چاہتی ہوں۔
معاویہ:۔ بہت بہتر:۔ تیسرے دو ہزار دینار سے کیا کرنا چاہتی ہوں؟
اروی:۔ ان دو ہزار دینار سے میں اپنی ذاتی ضروریات پوری کرونگی اور خانئہ خدا کی زیارت کو جائونگی۔
معاویہ:۔ بہت خوب ، چھ ہزار دینار تجھے دئے جاتے ہیں۔
معاویہ اپنی ناقص عقل سے سوچتا ہے کہ چھ ہزار دینار پاکر اروی کا علی کے بارے میں نظریہ بدل جائیگا اسی لئے کہتا ہے :۔ لیکن جانتی ہے اگر علی زندہ ہوتے اور میری جگہ علی ہوتے تو تجھے یہ سب مال عطا نہ کرتے ۔
لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ علی کی محبت جس دل میں ہوتی ہے اسکی نظر میں مال دنیا کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی 'اروی' جواب میں کہتی ہے :۔ ہاں معاویہ تونے بالکل صحیح کہا ،علی خدا کے فرمان پر عمل کرتے تھے اور لوگوں کے مال میں خیانت نہیں کرتے تھے۔ لیکن تو خدااور بندگان خدا کے اموال میں خیانت کرتا ہے ۔ بیت المال کو، جو کہ سب مسلمین کا حق ہے اپنی مرضی سے ایسے لوگوں کو دیتا ہے جو اسکے حقدار نہیں ہیں اسکے باوجود کہ تو جانتا ہے خدا نے حق کو حقدار کے لئے فرض قرار دیا ہے لیکن تو یہ جانتے ہوئے بھی اس پر عمل نہیں کرتا، وہ علی تھے کہ جنہونے ہمیں ہمارہ جائز حق لینے کے لئے دعوت کی لیکن افسوس کہ تونے انہیں جنگ میں مشغول کر دیااور انہیں لوگوں کے امور کا صحیح طریقہ سے انتظام نہ کرنے دیا ۔تونے انہیں مہلت ہی نہ دی کہ وہ لوگوں کے کاموں کی اصلاح کرتے اور انکی آسائش کا انتظام کرتے۔میں نے تجھ سے تیرے مال میں سے کوئی چیز طلب نہیں کی پھر تو کیوں مجھ پر احسان جتا رہا ہے میں نے صرف اپنا حق اوربیت المال میں سے اپناجائز حصہ تجھ سے مانگا ہے اور میں ہر گز لوگوں کے حقوق کہ پایمال نہیں کرنا چاہتی۔
اے معاویہ خدا تیرے منھ کو توڑ دے کس بری طرح تو علی کا نام لے رہا ہے اور کس برے طریقہ سے انکو یاد کر رہا ہے۔
اسکے بعد اروی اشکبار آنکھوں کے ساتھ مولا کی شان میں ان اشعار کو پڑھتی ہے۔
الا یا عین ویحک اسعدینا ۔۔ الا و ابکی امیرالمومنینا
رزنا خیر من رکب المطایا ۔۔ وفارسھا ومن رکب السفینا
ومن لیس النعال او احتذاھا ۔۔۔ ومن قر ء المثانی والمئینا
اذا استقبلت وجہ ا ی حسین ۔۔ رایت البدر راع الناظرینا
فلا واللہ لا انسی علیا ۔۔۔ و حسن صلوتہ فی ا لراکعینا
ا فی الشھر الحرام فاجتمعونا ۔۔۔ بخیر الناس طرا اجمعینا

مضمون اشعار::۔۔
ہاں اے میری آنکھو میری مدد کرو ، آنسو بہائو اورگریہ کرو،امیرالمومنین علی کو کھو دینے پر، ہائے ہم نے کس بزرگ شخصیت کو ہاتھ سے کھو دیااور کس بلا اور سوگواری میںمبتلا ہو گئے۔ وہ شہسوار میدان جنگ کہ زمانہ کی آنکھوں نے اسکے جیسا کوئی دوسرا نہیں دیکھا،اور کیسا قارئی قرآن کہ اسکی طرح کسی نے قرآن پر عمل نہیں کیا ،آہ ، جب بھی اسکے چہرئہ مبارک پر نظر پڑتی تھی محسوس ہوتا تھا گویا ماہتاب کو قریب سے دیکھ رہے ہیں، قسم خدا کی میں علی کو ہرگز نہیں بھول سکتی اور کبھی بھی ان کی ان نمازوں ،ان اذکار اور ان مناجاتوں کو فراموش نہیں کر سکتی ۔ہائے افسوس ؛ کہ ماہ حرام ،ماہ مبارک رمضان میں وہ حادثہ پیش آیااور ہم نے بہترین انسان کو کھو دیا۔
'اروی ' کے اشعار نے سامعین اور حاضرین کو تعجب اور سوز و غم میں مبتلا کر دیا ؛ معاویہ اپنے دربار والوں کی یہ حالت دیکھ کر کہتا ہے کہ :، اے پھوپھی جان آپکے چھ ہزار دینار حاضر ہیں انہیں دریافت کریں اور جس طرح آپکا دل چاہے آپ انہیں خرچ کریں اور جب بھی آپ کو کوئی حاجت ہو میرے لئے لکھ بھیجئے میں پوری کر دونگا۔
اروی کہتی ہے:۔ نہیں مجھے تجھ سے کوئی حاجت نہیں ہے اور دربار سے باپر چلی جاتی ہے۔
معاویہ حاضرین کی طرف چہرہ کرتا ہے اور کہتا ہے : اگر تم سب کے سب اسکے مخالف ہو جاتے اور اسکے خلاف بات کرتے تب بھی تم سب کے سب اسکا مقابلہ نہیں کر سکتے تھے وہ تم میں سے ہر ایک کو مناسب اور دندان شکن جواب دیتی۔
یہ تھی ہماری اس تحریر اور تاریخ اسلام کو اپنی حق گوئی اور ولایت علی کے چراغوں سے روشن کرنے والی اروی بنت حارث ابن عبدالمطلب کہ جنہونے معاویہ اور اسکے خبیث اصحاب کو رسوا کرنے کے ساتھ ساتھ محمد و آل محمد کی امت پر فضیلت کو ظاہر کیا ۔سلام ہو ہمارہ ان شیر دل خواتین پر کہ جو اپنی سیرت کے ذریعہ صرف عورتوں ہی کے لئے نہیں بلکہ مردوں کے لئے بھی نمونئہ عمل بن گئی ۔
خدا ووند عالم سے دعا ہے کہ اس ولایت علی سے شرابور خاتون کے طفیل ہم سب کے دلوں کو محبت محمد و آل محمد سے نورانی فرمائے اور انکے دشمنوں سے اور انکے جیسے اعمال سے دوری بنانے کی توفیق دے آمین

2 comments: