Wednesday, April 1, 2009

qeyame imam husain alaihissalam aur darse shuja'at

قیامِ حسین اور درسِ شجا عت سیّد نقی حیدر نقوی
کربلا کی جنگ حقّ و باطل کے درمیان حدِّ فاصل ہے جسکو حسین نے اپنے لہو کی سرخی سے روشن اور نما یاں کر دیاحسین نے انسانیت کو ظلم سے مقابلہ کا سبق پڑھایا اور حقّ و باطل کی جنگ میں مصلحت سے کام لینے والوں کو ایک درس دیدیا کہ اسلام کی حفاظت کا جب وقت آ ے جب حق کو باطل سے جدا کرنے کا وقت آے تو کسی مصلحت کی کویی اہمیت نہیں ہوتی حسین نے انسانیت کو شجاعت کا درس دیا ایسا درس کہ جس نے پڑھ لیا پھر عمر کی شرط اور قید اسکے لیے مہم نہیں رہی بڑھاپا بچپنہ معیار نہ رہا دولت اور سلطنت راہ کو نہ روک سکی حسین نے جب قیام کی ابتدا کی دربار ولید میں سے لے کر اپنے سجدۂ آخر تک اپنے موقف کو واضح رکھا کہ جس سر پر دینِ الٰہی کی عزّت و عظمت کا تاج ہو وہ کبھی ظالم کے آگے جھک نہیں سکتا جس ہاتھ میں امانتِ رسالتِ انبیاء ہو وہ ہاتھ دشمنانِ رسالت کے ہاتھ میں نہیں جا سکتا حسین کے اس درس ِ انقلاب کی عبارتوں سے حسین کا موقف معلوم ہوتا ہے کہ حسین نے ہمیشہ غیرت و حشمت ِ اسلام کی حفاظت کی اور کہیں بھی ظالم کی طاقتوں کے سامنے زبان حسین حق گویی کرتے نہیں لرزی اسی درسِ جوانمردی کی کچھ عبارتوں کے بیان اور ملاحظہ سے معلوم ہوتا ہے کہ حسین کا حدف کیا تھا کچھ خاص مقامات پر امام کے خاص جملات و خطابات تاریخ پیشانی پر سنہرے جھومر کی طرح رونق افروز ہیں انہیں میں سے کچھ کلمات کو حسین کے قیام کو سمجھنے کے لیے وسیلہ قرار دیتے ہیں
حاکم مدینہ (ولید ابن عتبہ ابن ابی سفیان ) سے خطاب
معاویہ کی موت کے بعد ولید ابن عتبہ نے امام حسین کو دربار میں طلب کیا اور بیعت کا مطالبہ کیا اور امام نے پہلے ہی مرحلے میں اپنے فضایٔل و کمال اور یزید کی خصلتوں کے ذکر کے بعد اپنا ارادہ کچھ یوں ظاہر کیا "" مثلی لا یبایع مثلہ ١) "" میرے جیسا انسان یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا یہاں پر حسین نے اپنے اور یزید کی صفات کے بیان کے بعد فرمایا میرے جیسا یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا حسین درحقیقت اپنے صفات نہیں بلکہ جوانمردوں کے صفات بتا رہے تھے اور اسکی راہ بھی روشن کر رہے تھے کہ کویی بھی غیرتمند انسان یزید جیسے کی بیعت نہیں کر سکتا
اسکے دوسرے جب مروان نے امام کو نصیحت یا خیر خواہی کی رو سے یزید کی بیعت کرنے کو کہا تو مولا نے بلاکسی جھجھک اور تمام ثابت قدمی کے ساتھ فرمایا "" انا للہ و انا الیہ راجعون ۔و علی الاسلام السلام اذا بلیت الامہ براع مثل یزید٢) "" امام نے یہاں بھی ایک غیورمسلمان کی راہ کو واضح کر دیا یہاں بھی امام نے ایک قیامت تک کے لیے پیغام دیا یہ نہیں کہا کہ جب اسلام کی زمام یزید کے ہاتھ میں ہے تو اسلام پڑھ دو نہیں بلکہ امام نے فرمایا جب اسلام کی زمام یزید صفت کے ہاتھ میں تو اسلام کو وداع کر دیا جاے یہ بیان قیامت انے والو کو کو درس انقلاب دے رہا ہے کہ جب دیکھو یزید جیسے لوگ اسلام کے ٹھیکیدار ہیں تو پھر حسین جیسی روش اپناؤ اسلام کے آینہ پر چڑھی گرد کو لہو سے دھو ڈالو
امام اپنے بھایی محمد حنفیہ سے فرماتے ہیں "" یا اخی واللہ لولم یکن فی الدنیاملجاء ولاماوی لما بایعت یزید ابن معاویہ ٣) "" امام نے فرمایا کہ اے بھای اگر ساری زمین میں میرے لیے کوی بھی پناہ گاہ نہ ہو تب بھی میں یزید کی بیعت نہیں کرونگا امام نے بتا دیا کہ اگر ساری دنیا کی پناہ کھو کر بھی عزت اسلام کی انسان حفاظت کرے تو نقصان میں نہیں رہیگا
امام منزل بیضہ پر فرماتے ہیں کہ """ قال رسول ا للہ من رایء سلطانا جایئرا مستحلالحرم اللہ ناکثا لعہد اللہ مخالفا لسنت رسول اللہ یعمل فی عباد اللہ با لاثم والعدوان ثم لم یغیّر بقول ولا فعل کان حقا علی اللہ ان یدخلہ مدخلہ "" ٤)یہاں ہر امام نے حق پرستوں کے لیے راہ کو روشن کر دیا اور فرمایا جو بھی کسی ظالم حکمران کو دیکھے کہ وہ حرام کو حلال اور حلال کو حرام میں تبدیل کر رہا ہے اللہ کے پیمان کو توڑ رہا ہے سنت رسول اللہ کی مخالفت کر رہا ہے اور اللہ کے بندو کے ساتھ میں گناہ اور بغض کی رو سے برتاؤ کر رہا ہے اور یہ سب دیکھنے کہ بعد بھی انسان ان تبدیلیوں کے خلاف زبان سے یا عمل سے اقدام نہ کرے تو اللہ کو حق ہے کہ وہ اس دیکھنے والے کو اس ظالم بادشاہ کے ساتھ محشور فرماے ٔ یہاں پر امام نے راہ انسان اور اسلام کو بلکل رو شن کر دیا اور ایک مسلمان کے لیے اسکی ذمہ داری کو بیان کردیا
کربلا پہنچ کر امام اپنے زمانہ کے حالات کو بیان کرتے ہیں اور فرماتے ہیں "" لیرغب المومنفی لقاء ربّہ حقا فانی لا اری الموت الاّ سعادت والحیات مع الظاّ لمین الاّ برما "" ٥) اگر مومن ان حالات میں اپنے پروردگار سے ملاقات کی رغبت کرے اسلیے کہ ان حالات میں موت جز سعادت اور کامیابی اور ظالمین کے ساتھ زندگی گزارنے میں ذلت اور رسوایی کے علاوہ کچھ نہیں دیکھتا ہو
یا امام انسانیت کو عزت کا درس دیتے ہوے فرماتے ہیں موت فی عزّ خیر من حیات فیذلّ عزت کی موت ذلت کی زندگی سے بہتر ہے امام علیہ السلام کتاب عزت کے آخھری درس کو یوں بیان فرماتے ہیں "" الا و ان الدعی بن الدعی قد رکز بین اثنتین بین السلّت والذلّت و ہیہات منا الذلہ "" ٦) جان لو کہ اس بد بخت باپ کے بد بخت بیٹے نے مجھے اختیار دیا کہ دو میں سے ایک چیز کو قبول کر لوں یا تلوار کو ( یعنی قتل ہو جانے کو ) یا ذلت کو ( یعنی بیعت کو اور ہم لوگ ذلت سے بہت دور ہیں
امام نے فرمایا کہ جب عزت ِاسلام کی بات آجاے ٔ تو سر کٹا دینا گھر بار لٹا دینا کہیں بہتر ہے ذلّت کو قبول کرنے سے
خدا وند عالم سے دعا ہے کہ پروردگار ہم لوگوں کو اس درسگاہ ِ شجاعت اور غیرت کے کامیاب شاگرد بننے کی توفیق عنایت فرما ۔ بحقّ الحسین وابنائہ و انصارہ
١۔بحار ج ٤٤ ص ٣٢٥
٢۔مقتل خوارزمی ج١ص١٨٥
٣۔بحار ج ٤٤ ص٣٢٩
٤۔ارشاد ج ٢ ص ٢٣٤
۔٥۔بحار ج ٤٤ص٣٨١ ۔
٦۔ تحف العقول ص٢٤١۔بحارج ٤٤ ص١٩١

1 comment:

  1. Mashallah MAULA apko apny yar-o-ansaar main shumar farmain ameen.....

    ReplyDelete